میت کمیٹی کی بنیاد وقف پر ہونی چاہیے

حالات میں ایک جگہ سے دوسری جگہ میت منتقل کرنا مکروہ ہے۔لیکن چونکہ آپ کی رہائش غیر مسلم ملک میں ہے اور سوال کے مطابق وہاں مسلمانوں کے قبرستان نایاب ہیں،اِسی لیے لوگ اپنی میت پاکستان منتقل کرنے کا اہتمام کرتے ہیں،لیکن بسا اوقات اِس منتقلی کے اتنے اخراجات ہوتے ہیں جس کی ادائیگی انسان کے بس سے باہر ہوجاتی ہے۔لہذا لوگوں کی آسانی کے لیے میت کمیٹیاں بنائی گئیں ہیں تاکہ میت کو بآسانی دوسرے مسلمان ملک منتقل کیا جاسکے۔لیکن ان کمیٹیوں کے قواعد و ضوابط سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ کمیٹیاں وقف کی بنیاد پر قائم نہیں کی گئیں،اِس صورت میں شرعاً ان کمیٹیوں کے قیام میں یہ خرابی پائی جاتی ہے کہ چندہ دینے والوں کی ملکیت اس چندے سے ختم ہوتی ہے یا نہیں؟ اگر ملکیت ختم نہیں ہوتی،تو اِس صورت میں کمیٹی کو دی گئی رقم کی حیثیت امانت اور قرض کی ہے،لہذا اِس صورت میں اگر چندہ دینے والے کا انتقال ہوجائے اور اُس وقت تک اُس کی دی ہوئی رقم کسی مصرف پر خرچ نہ ہوئی ہو تو اِس رقم پر ترکہ کے احکام لاگو ہونگے،اور اس رقم کی ادائیگی چندہ دینے والے کے ورثاء کو کرنی لازم ہوگی۔نیز اگر چندہ دینے والا صاحبِ نصاب ہو تو اِس رقم پر زکوۃ کی ادائیگی بھی لازم ہوگی حالانکہ کوئی بھی اس کی زکوۃ ادا نہیں کرتا۔لہذا ان خرابیوں سے بچنے کے لیے  آگے آنے والے طریقہ اور شرائط کے مطابق مذکورہ کمیٹیوں کے قیام،اور ان کا ممبر بننے کی اِجازت ہے۔ 

  1. ان کمیٹیوں کا قیام وقف کی بنیاد پر کیا جائے،اور ممبر بنانے کے فارم پر شروع ہی میں یہ بات تحریر کردی جائے کہ یہ کمیٹیاں وقف ہیں،اور اِن میں دی جانے والی رقم وقف کی مملوک ہوگی۔کمیٹیوں کو وقف پر چلانے کا طریقہ یہ ہوگا کہ ابتداء میں کچھ رقم وقف کی جائے جس کو خرچ کرنا جائز نہیں ہوگا،کیونکہ وقف میں اصل کو باقی رکھنا ضروری ہوتا ہے۔اِس طرح جب وقف فنڈ قائم ہوجائے تو اس کے بعد جب اِس فنڈ میں ممبران مزید رقم دیں گے تو وہ رقوم مملوکِ وقف ہونگی اور اِن رقوم کا واقفین کے بنائے ہوئے جائز ضابطوں کے مطابق خرچ کرنا جائز ہوگا۔نیز بعد میں شامل کی جانے والی رقم سےایسے اداروں کے ساتھ سرمایہ کاری کرکے نفع بھی کمایا جاسکتا ہے جو شرعی تقاضوں کے مطابق سرمایہ کاری کررہے ہوں۔ 

2) جن غیر مسلم ممالک میں میت کی تدفین مسلمانوں کے علاقائی قبرستان میں ممکن ہو تو وہیں اُن کے دفن کا انتظام کیا جائے۔بلا ضرورت دوسری جگہ منتقل کرنے سے احتراز کیا جائے۔نیز یہ صورت بھی ممکن ہے کہ مقامی غیر مسلم قبرستان کا کوئی کونا(حصہ)مسلمانوں کے لیے مخصوص کروالیا جائے،اور اِس خاص حصہ میں مسلمانوں کی تدفین کی جاتی رہے اس کی گنجائش ہے۔بلا ضرورت میت کو کسی مسلم ملک منتقل کرنے کی فکر اور اس کا اہتمام نہیں کرنا چاہئے،کیونکہ احادیث میں پردیس میں موت واقع ہونے کی صورت میں بعض فضائل آئیں ہیں۔ایک حدیث میں آیا ہے کہ 

’’ایک صاحب کی مدینہ میں وفات ہوئی ان کی پیدائش بھی مدینہ میں ہوئی تھی تو نبی ﷺنے ان کا جنازہ پڑھا کر فرمایا :کاش وہ دوسرے ملک میں مرتا۔ایک شخص نے عرض کیا:کیوں یا رسول اللہﷺ؟آپ نے فرمایا:جب آدمی اپنی پیدائش کے مقام کے سوا دوسرے ملک میں مرے تو اُس کی پیدائش کے مقام سے لیکر موت کے مقام تک اُس کو جنت میں جگہ دی جائیگی‘‘۔ 

اور ایک دوسری حدیث میں ہے 

’’سفر کی موت شہادت ہے‘‘۔ 

3)ورثاء کو جو رقم دی جائے اُس کا مقصد اُن کا مالی تعاون ہو،مروجہ رسوم و بدعات کی تکمیل کے لیے اِس رقم کو مہیا کرنا مقصود نہ ہو۔ 

4)چندہ وصول کرنے کے لیے ایسا کوئی طریقہ اختیار نہ کیا جائے جس میں چندہ دینے والے پر جبر ہو،بلکہ جو اپنی خوشی سے ممبر بننا چاہے صرف اُسے ممبر بنایا جائے۔ 

5)کمیٹی اگر وقف نہ ہو تو اِس صورت میں’’محمدیہ اسلامی مرکز کمیٹی‘‘کی شق نمبر ۴درست نہیں ہے،نیز’’النور اسلامی ثقافتی مرکز‘‘کی شق جو ایسے مضمون پر مشتمل ہے درست نہیں؛کیونکہ اوپر یہ بیان کیا جاچکا ہے کہ کمیٹی وقف نہ ہونے کی صورت میں کمیٹی کو دی ہوئی رقم میں شرعی اعتبار سے یہ خرابی ہے کہ وہ چندہ دہندہ کی ملکیت سے نکل گئی یا نہیں؟رقم ملکیت میں موجود ہونے کی صورت میں اگر چندہ دہندہ اقساط ادا نہ کرے تو اُسے اپنی رقم واپس لینے کا حق ہے۔کمیٹی کا ادا شدہ اقساط ادا نہ کرنا درست نہیں ہے۔البتہ اگر کمیٹی کو وقف کی بنیاد پر چلایا جائے تو اِس صورت میں چونکہ فنڈ میں دی ہوئی رقم وقف کی مملوک ہوجاتی ہےاور چندہ دہندہ کو اپنی رقم واپس لینے کا حق حاصل نہیں رہتا،اس لیے اِس صورت میں ممبر کے اقساط ادا نہ کرنے کی صورت میں یہ شق درست ہوجائیگی۔

واللہ اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں