مذہب اور معاشرہ

معاشرے کا قرآنی تصور
قرآن کریم نے معاشرے کے مشہور تصورات سے آگے بڑھ کر ایک ایسا تصور پیش کیا ہے جو مثالی معاشرے کی سب سے عمدہ تصویر ہے۔ قرآن کریم اسلامی معاشرے کو ’’بھائی چارے‘‘ کے عنوان سے تعبیر کرتا ہے اسلیے کہ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک مثالی معاشرہ نہیں بن سکتا جب تک اس کے تمام افراد کو مساوی انسان نہ سمجھا جائے اس کے بغیر معاشرے کے افراد کو بنیادی ضروریات اور ذہنی آسودگی کا حصول ناممکن ہے۔ اس معاشرے کے افراد کا تعارف قرآن کریم ان الفاظ میں کرواتا ہے ۔’’یأمرون بالمعروف وینھون عن المنکر ویؤمنون باللہ‘‘ یعنی وہ لوگ بھلائیوں کا حکم کرتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں اور اللہ پر ایمان رکھتے ہیں گویا ان کا مطمح نظر آخرت کی فلاح و کامیابی اور اللہ کی رضا کا حصول ہوتا ہے اور وہ پورے معاشرے کو اس کامیابی سے ہمکنار کرنے کی فکر کرتے ہیں ،یہی وہ طرز عمل ہے جو افراد میں خدا پرستی، اعمال کا شوق اور جوابدہی کا خوف پیدا کر سکتا ہے۔ معاشرے کی اصل اجتماعیت ہے جو افراد سے وجود میں آتی ہے اگر افراد اوصاف سے مزین ہونگے تو معاشرہ بھی مثالی ہوگا وحی کی تعلیمات میں افراد کے کردار کو بنیاد بنایا گیا ہے اور انہی عمدہ اوصاف کے حامل افراد کو ’’اولٰئک ہم الراشدون ‘‘ ’’اولٰئک ہم المفلحون‘‘ کے خطاب سے مزین فرمایا گیا ہے۔
قرآن کریم معاشرے کی تشکیل ایسے ابدی اصولوں پر کرتا ہے جو ہر زمانے کے تقاضوں کے عین مطابق ہیں۔قرآن کریم کے پیش کردہ اصولوں کو اجمالا دو جہتوں سے سمجھا جا سکتا ہے ۔

۱) نظریاتی جہت

۲)عملی جہت

کسی بھی معاشرے کی تشکیل میں عام طور سے یہی دو جہتیں کار فرما ہوتی ہیں۔ قرآن کریم نے ان دونوں جہتوں کو بہت اہتمام سے واضح کیا ہے۔
قرآن کریم اور معاشرے کا نظری تصور:
اللہ رب العزت نے معاشرے کی اصلاح کے لیے انبیاء کرام کا سلسلہ جاری فرمایا ۔تمام انبیاء کی بنیادی محنت معاشرے کے افراد پر تھی انبیاء کرام افراد امت میں نظریاتی ، عملی اور اخلاقی جہتوں سے کوشش کرتے تاکہ ایسا معاشرہ تشکیل پائے جس کی بنیاد نظریہ توحید پر قائم ہو ،جس کے اعمال انبیاء کرام کے پیش کردہ سانچے میں ڈھلے ہوں ،جس کے اخلاق آخرت کی جوابدہی کے خوف اور رحمت خدا وندی کی امید سے مزین ہوں۔ قرآن کریم کے پیش کردہ انبیاء کرام کی محنت دعوت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ معاشرے کی نظریاتی تشکیل تین عقائد پر رکھی گئی ہے۔ عقیدہ توحید ،عقیدہ رسالت اور عقیدہ آخرت۔ یہ وہ بنیادی عقائد ہیں جو کسی بھی معاشرے کی نظریاتی اساس ہیں ۔
انبیاء کی دعوت کی بنیاد:
ہر نبی کی اپنی قوم میں دعوت کو قرآن ان الفاظ سے بیان کرتا ہے ’’ولقد بعثنا فی کل امۃ رسولا ان اعبدوا اللہ واجتنبوا الطاغوت‘‘ اور ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ لوگو صرف اللہ کی عبادت کرو اورطاغوت سے بچو۔ ’’یا قوم اعبدوا اللہ مالکم من الہ غیرہ‘‘اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ۔’’وما ارسلنا من قبلک من رسول الا نوحی الیہ انہ لا الٰہ الا انا فاعبدون‘‘
(انبیاء ۲۵)
اور ہم نے نہیں بھیجا آپ سے پہلے کوئی رسول مگر اسکی طرف یہی وحی کی گئی کے میرے سوا کوئی معبود نہیں پس میری ہی عبادت کرو۔مذکورہ آیات واضح کرتی ہیں کہ انبیاء کی بعثت کا سب سے بڑا مقصد توحید الٰہی کا اثبات اور تمام انسانیت کو فکری اعتبار سے ایک وحدت پر جمع کرنا ہے۔اس دعوت کے ردعمل میں جب انبیاء کو معاشرتی مخالفت درپیش ہوتی کبھی پاگل اور کبھی گمراہ کے طعنے ملتے تو تحمل اور برداشت کے ساتھ اپنا تعارف پیش کرتے ’’یٰقوم لیس بی سفاہۃ ولکنی رسول من رب العالمین‘‘(اعراف)اے میری قوم میں پاگل نہیں ہوں بلکہ میں تو رب العالمین کا قاصد ہوں ۔ ’’یٰقوم لیس بی ضلٰلۃ ولٰکنی رسول من رب العالمین ‘‘(اعراف) اے میری قوم میں گمراہ نہیں ہوں بلکہ رب العالمین کا قاصد ہوں۔ اس سادہ سے تعارف میں داعی توحید کی اس جامع حیثیت کو بیان کردیا کہ پوری قوم کی مخالفت کے باوجود اتنی بڑی نظریاتی تبدیلی کی دعوت پیش کرنے والا کوئی معمولی انسان نہیں مالک دو جہاں کا فرستادہ ہے،یہی وہ نظریہ ہے جو ماننے والوں میں نبی کی زبان سے نکلی ہر بات بلا کسی شبہ کے تسلیم کرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔اس اقرار توحید میں خلوص اور للٰہیت کی آمیزش اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک یہ احساس پیدا نہ ہو جائے کہ ایک ایسے دربار میں حاضر ہونا ہے جہاں جزا اور سزا کے فیصلے دل کے جذبوں کی بنیاد پر ہونگے ،جہاں عمل کی مقبولیت کے لئے نیتیں کام آئیں گی ،وہ ایسی ذات کا دربار ہے جو عالم الغیب والشہادہ ہے ،جو دلوں کے بھید جاننے والا ہے۔اس احساس کو اجاگر کرنے کے لئے عقیدہ آخرت بنیادی محرک ہے۔یہی وہ عقیدہ ہے جو انسان کو سیدھے راستے پر کاربند رکھ سکتا ہے ’’وان الذین لا یومنون بالآخرۃ عن الصراط لنکبون‘‘جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے وہ سیدھی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں۔
قرآن کریم اورمعاشرے کا عملی تصور:
قرآن کریم کا پیش کردہ معاشرے کا عملی تصور بہت جامع ہے ۔قرآن کریم نے دو جملوں میں پورے معاشرے کا بنیادی ڈھانچہ بیان کیا ہے۔قرآن کریم بیان کرتا ہے ’’ان اللہ یأمر بالعدل والاحسان وایتاء ذی القربیٰ وینھیٰ عن الفحشاء والمنکر والبغی‘‘بیشک اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے انصاف اور احسان کا اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے کا، اور بے حیائی بدی اور ظلم سے روکتا ہے۔قرآن کریم کی یہ وہ جامع ترین آیت ہے جس نے پورے اسلامی معاشرے کے بنیادی خد و خال کو واضح فرمایا ہے۔اسلامی معاشرے کا عملی ڈھانچہ دو اصولوں پر قائم ہے ۱) عدل ۲) احسان ۔ یہی وہ بنیادی اصول ہیں جو کسی بھی معاشرے میں رائج ہو جائیں تو معاشرہ ایک مثالی معاشرہ کہلانے کا حقدار ہے،اور اگر کسی معاشرے میں یہ دو چیزیں مفقود ہوں تو اس معاشرے کی ہلاکت اور بربادی میں کوئی تردد نہیں رہتا۔
عدل :
عدل کہا جاتا ہے حقوق کی ادئیگی کو۔عدل کا مفہوم شریعت کی اصطلاح میں بہت وسیع ہے۔زندگی کے ہر شعبے میں اپنے اوپر لاگو ہونے والی ذمہ داریوں کو پورا کرنا اور اپنی ذات سے متعلق ہر مخلوق کے حقوق کو کما حقہ ادا کرنا عدل ہے، چاہے وہ حقوق باپ کے اولاد پر ہوں یا اولاد کے باپ پر،استاذ کے شاگرد پر ہوں یا شاگرد کے استاذ پر ، حاکم کے محکوم پر ہوں یا محکوم کے حاکم پر، افسر کے ملازم پر ہوں یا ملازم کے افسر پر،شوہر کے بیوی پر ہوں یا بیوی کے شوہر پر،اسی طرح معاشرے کے دیگر افراد کے حقوق حتیٰ کہ ان تمام چیزوں کے حقوق جن سے ہماری ضروریات وابستہ ہیں،ان تمام حقوق کی ادائیگی عدل کہلاتی ہے۔ دوسری جگہ فرمایا:
’’اعدلوا ہو اقرب للتقویٰ
‘‘انصاف کرو یہ تقوے کے زیادہ قریب تر ہے۔قرآن کریم کی آیت کا اسلوب بتاتا ہے کہ شریعت نے ہر فرد کو انفرادی اور اجتماعی دونوں حیثیتوں میں ادائیگی حقوق کی ترغیب دی ہے مطالبہ حقوق کا ذمہ دار نہیں بنایا، وجہ ظاہر ہے کہ مطالبہ حقوق میں لگ کر انسان اپنی ذمہ داریوں کی بجا آوری سے غافل ہوجاتاہے جبکہ ادائیگی حقوق کا اہتمام اگر معاشرے کے افراد میں پیدا ہوجائے تو کسی کو مطالبہ حقوق کی ضرورت ہی نہ رہے اس لیے کہ ایک کی ذمہ داری دوسرے کا حق ہوتا ہے۔ لہٰذا اسلام نے اس بات کی ترغیب دی ہے کہ ہر فرد اس بات کا مکلف ہے کہ حقوق ادا کرے۔ اسی کو حضور ﷺ کی اس حدیث کی روشنی میں بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا! ’’تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں سوال کیا جائے گا‘‘
احسان:
قرآن کریم نے صرف ادائیگی حقوق کی ترغیب پر ہی اکتفاء نہیں فرمایا بلکہ آگے بڑھ کر اس بات کی بھی ترغیب دی کہ حقوق سے آگے بڑھ کر لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنا چاہے اس صورت میں اپنا دنیاوی نقصان ہی کیوں نہ نظر آتا ہو ۔ دوسرے مسلمان کو اپنی ذات پر ترجیح دینا اور اپنی ذمہ داری سے آگے بڑھ کر اس کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرنا اسی کو احسان کہا جاتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی اس صفت کو قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے ’’یؤثرون علی انفسھم ولو کان بھم خصاصۃً‘‘ وہ دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود ضرورت مند ہوں۔‘‘ یہی وہ صفت ہے جو معاشرے میں الفت و محبت کا ذریعہ بنتی ہے۔ اس کا اعلیٰ نمونہ ہجرت مدینہ کے موقع پر نظر آتا ہے جب انصار نے مہاجرین کے لیے اپنے دل کے دروازے کھول دیے اور اپنی تمام چیزیں استطاعت سے بڑھ کر مہاجرین پرنچھاور کردیں۔ انسانی تاریخ میں اس کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔ قرآن و حدیث پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام ادلے بدلے سے زیادہ احسان پر زور دیتا ہے۔حضورﷺ کا ارشاد اس کا واضح ثبوت ہے کہ
’’صل من قطعک واعف عن من ظلمک واحسن الیٰ من اساء الیک‘‘
فرمایا جو توڑے اس سے جوڑو جو ظلم کرے اسے معاف کردو جو برائی کرے اس کے ساتھ بھلائی کرو۔یہ وہ بنیادی اسلامی تعلیم ہے جو کسی بھی مثالی معاشرے کے افراد کی ممکنہ سوچ کا اظہارہے۔یہی بنیادی سوچ ایک فلاحی معاشرے کی تشکیل کی بنیاد ہے۔
معاشرے کے فساد کے اسباب :
اسی آیت کے دوسرے حصے ’’وینھیٰ عن الفحشاء والمنکر والبغی‘‘ میں اللہ ر ب العزت نے ان مفسدات سے بچنے کا حکم دیا جو کسی بھی معاشرے کے لئے مہلک ثابت ہوتے ہیں۔ تین ایسی چیزوں سے رکنے کا حکم فرمایا گیا جو در حقیقت تمام فسادات کی جڑ ہیں ۔سب سے پہلی چیز بے حیائی کو بیان فرمایا جو یقیناًبرائی کی جڑ ہے۔ حضورﷺ کا واضح ارشاد ہے ’’اذا لم تستحی فاصنع ما شئت‘‘ جب تم بے حیا ہو جاؤ تو پھر جو چاہے کرو۔ حیاء در حقیقت ایک ایسی صفت ہے جو انسان کو نامناسب چیزوں سے روکتی ہے ،یہ حیاء ہی ہے جو انسان میں تنہائی کے موقع پر اللہ تعالیٰ کی موجودگی کا احساس پیدا کر کے نافرمانیوں سے روک سکتی ہے ،لیکن اگر یہ حیاء ہی نہ رہے تو سر بازار بھی کوئی طاقت انسان کو حیوانگی سے باز نہیں رکھ سکتی۔جس معاشرے میں بے حیائی عام ہوجائے وہاں عدل و احسان تو درکنار ظلم و زیادتی کا رواج عام ہو جاتا ہے۔بے حیائی انسان کو ان افعال تک لے جاتی ہے جو شریعت سے قطع نظر عام فطرت انسانی کے لئے بھی نا پسندیدہ ہیں،اسی لئے آیت میں سب سے پہلے بے حیائی سے رکنے کا حکم فرمایا۔دوسری چیز منکر(بدی) کو ذکر فرمایا منکر سے مراد ہر وہ برائی جو کسی معاشرے کے لئے نقصان کا باعث بنے ۔ تیسری چیز بغی(سرکشی) یعنی اپنی حدود سے تجاوز کرنا یہی عدل کی ضد ہے جو معاشرے میں فساد کا باعث ہے، جب معاشرے کا ہر فرد شریعت و فطرت کی متعین کردہ حدود سے تجاوز شروع کردے تو ایسا معاشرہ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا۔ اسی لئے فرمایا ’’ومن یتعد حدوداللہ فقد ظلم نفسہ‘‘ جس نے اللہ کی حدود سے تجاوز کیا اس نے در حقیقت اپنے اوپر ظلم کیا ۔اور یہ ایسا عمل ہے جس کا انجام ہلاکت اور تباہی کے سوا کچھ نہیں۔  گذشتہ اقوام کے حالات اس کی واضح مثال ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں