معراج کی شہادتیں 

حضور  سرور کونین ﷺ  نے حالت بیداری  میں اپنے دنیوی  جسم اطہر  کے ساتھ  مکہ مکرمہ  سے بیت المقدس تک اور پھر وہاں  سے ساتوں   آسمانوں ، سدرۃ المنتہیٰ ، صریف الاقلام ، عرش اور مقام  قرب  ودنو تک کی سیاحت  فرمائی ۔ یہ ایک ایسی حقیقت  ہے جس کا  خود قرآن  ناطق ہے ۔ قرآن کریم  نے سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر  1 اور آیت نمبر  60  اور سورہ نجم  آیت نمبر  5 تا آیت  17  میں اس کی تفصیلات  کو ذکر  فرمایا ہے ۔ سورہ بنی اسرائیل  میں مسجد حرام  سے مسجد اقصیٰ  تک کے سفر کا ذکر ہے  اور سورۃ نجم  میں سدرۃ المنتہیٰ  اور اس سے آگے  دوسرے عجائبات  دیکھنے کا ذکر ہے  ۔

 قرآن  کے بعد  حدیث  کا مقام ہے ۔ ذخیرہ    احادیث  میں معراج   کی روایات  متواتر   وارد  ہوئی  ہیں ۔علامہ  قرطبی  ؒ  نے واقعہ اسراء ومعراج  کی روایات  کو متواتر  قرار دیاہے  ۔ علامہ  نقاش ؒ  نے اس کے   20  رواۃ  صحابہ  نقل  کیے ہیں ۔ حافظ  ابن کثیر  ؒ  نے ” تفسیر  ابن کثیر ”   میں سورۃ  بنی اسرائیل  کی آیت نمبر 1 کی تفسیر  کرتے ہوئے  واقعہ معراج  کی 50  سے زائد  روایات  مکمل  جرح  وتعدیل  کے ساتھ ذکر  کی ہیں  اور آخر   میں ان 25 صحابہ  وصحابیات رضی اللہ  عنہ  کے اسمائے  گرامی  بھی نقل  کردیے  ہیں  جن سے  یہ روایات   مروی  ہیں۔ علامہ  شبیر احمد عثمانی  ” فرماتے ہیں کہ واقعہ  معراج  30 صحابہ  رضی اللہ عنہم  سے منقول  ہے۔مولانا حفظ  الرحمٰن  سیو  ہاروی  نے محدث  زرقانی ؒ  سے نقل کیا ہے  کہ واقعہ معراج   45 صحابہ وصحابیات  رضی اللہ عنہ  سے منقول  ہیں اور انہوں نے   ان سب کے نام  بھی گنوائے ہیں ۔

 حدیث کے بعد  ” اجماع امت  ” کا مقام  ہے۔  دور نبوی   سے دور حاضر  تک کے  تمام   زمانوں  میں امت   کے طبقہ  علم اور طبقہ  عوام  سب ہی  اس کو تسلیم کرتے  آئے ہیں  ۔

اس لیے ایک صحیح العقیدہ  مسلمان  تو اس کا انکار یا اس میں شک  وشبہ کر ہی نہیں سکتا ۔  البتہ ملحدین، غیر مسلم اہل سائنس اور مستشرقین   ( غیر مسلم  ماہر اسلامیات)   کو اس پر کچھ   اعتراضات  ہیں ( یہ اعتراضات  اور ان کے جوابات  قارئین اسی رسالےمیں ملاحظہ فرمائیں  )  ذیل کی سطور  میں ان کے   شبہات  کو ان کی  اپنی زبان  میں حل   کرنے کی کوشش کی گئی  ہے۔

ھندو مت میں  معراج محمد  کی شہادتیں  :

  1. بھاگوت پرانا میں ہے:  آٹھ خوبیوں  اور  نعمتوں  سے مزین   وہ ایک  تیز رفتار   گھوڑے  پر سوار  ہوں گے  جو ان  کو فرشتے  دیں گے  ۔”  ( بھاگوات پرانا :20:2:19)
  2. اتھروید  کے دوسرے  منترے  میں ہے  : “مستقبل  کارشی  آسمانوں  پر ایک  ” رتھ ”  پر بیٹھ  کر جائے گا۔”  (اتھرویڈ  :20:9:31)
  3. تاریک یجروید  میں ہے :  ناراشنگساکو بہشت  پر لے  جایا جائے گا ایک گھوڑے  پر سوار  کر کے  جو فرشتے دیں گے ۔”  (1:7:4)
  4. کالکی پرانا  کے آخری  باب آیت نمبر  1میں ہے :”  کالکی  او تارایک  سفید  پر   سوار  ہوگا ، وہ اتنا   تیز ہوجائے گا جیسا کہ ہوا۔”
  5. درج بالا سطور  میں ”  ناراشنگسا” اور  کالکی  اوتار  ” سے  حضرت محمد ﷺ مرادہیں ۔ چنانچہ  ایک ہندو عالم  “وید  پر  کاش اوڈھیاپا  نے اپنی کتاب  Mohammad in Vedas and purines”  میں تحقیق سے یہ بات  ثابت کی  ہے کہ  ویدوں  اور پرانوں  ( ہندوؤں کی مقدس کتابوں )  میں مختلف  جگہوں میں مختلف  ناموں  سے حضرت  محمد ﷺ کا ذکر ہے  ۔

اول: “ناراشنگسا” یعنی  تعریف  کیاگیا انسان  ۔ لفظ محمد  کا مطلب  بھی یہی ہے۔

دوم:  “انتم رشی”  یعنی آخری  اوتار ۔ قرآن  کے مطابق حضرت  ہی آخری  رسول ہیں ۔

سوم  : ” کالکی اوتار  ” یعنی  آخری زمانے  کے برگزیدہ  شخص۔ حضور ﷺ ہی آخری زمانے  کے سب  سے برگزیدہ  انسان ہیں۔ اس  تفصیل  سے معلوم ہوا کہ سابقہ حوالہ جات  کے مصداق حضرت محمد ﷺ ہی ہیں ۔

یہودیت  میں معراج  محمد کی شہادت  :

 یہودیت  کے نزدیک  حضرت ایلیاء  علیہ السلام  کا اپنے جسد  عنصری کے ساتھ  زندہ آسمانوں  پر جاسکتے ہیں تو کیا حضرت محمد ﷺ نہیں جاسکتے۔

عیسائیت میں معراج محمد  کی شہادت  :

 حضرت عیسیٰ علیہ السلام  کا زندہ آسمان  پر جانا  اور پھر آخری  زمانے میں آسمان  سے  اترنا عیسائیوں  کے ایک گروہ کا عقیدہ ہے ۔ جو عیسائی  حضرات  معراج  محمد ﷺ پر اعتراض کرتے  ہیں  کہ یہ عقل  وسائنس کے خلاف  ہے وہ حضرت  عیسیٰ  علیہ السلام  کے آسمان  پر جانے  اورآخری  زمانے  میں نزول  مسیح کے  عقیدے  کے بارے  میں کیا کہیں گے ؟

 تاریخ  میں معراج  محمد کی شہادتیں :

  1. رسول اکرم ﷺ نے ہر قل شاہ روم  کی طرف  جب حضرت  دحیہ  رضی اللہ عنہ  کے ہاتھوں دعوت  اسلام کا خط  روانہ  کیا  تو ہر قل  نے اسے  پڑھنے  کے بعد  حضور ﷺ کے حالات  کی تحقیق کے لیے عرب   تاجروں  کو حاضر  کرنے کا حکم دیا۔ ہر قل  کے سامنے   جو عرب  تاجر حاضر  ہوئے ،ان  میں ابو سفیان  اور ان کے کچھ رفقاء  بھی تھے ، ابو سفیان  اس وقت   تک اسلام  نہیں لائے تھے ، انہوں نے   یہ سوچ کرکہ   واقعہ معراج  ہی ایک ایسا نکتہ  point ہے  جسے سن کر  ہر قل  حضرت محمد ﷺ کو جھوٹا مان لے گا ، ہر قل  کے سامنے  واقعہ معراج رکھ دیا اور کہا کہ یہ مدعی  نبوت  تو یہ کہتے ہیں  کہ میں نے رات  کے مختصر  سے وقت  میں  مسجد حرام   سے بیت المقدس تک کا سفر   کیا اور  اسی مختصر  وقت میں دوبارہ مکہ  واپس آگیا۔  آپ خود ہی  اندازہ لگاسکتے  ہیں کہ ایسے  دعوے کرنے والا  شخص ( معاذ اللہ)  سچا کیسے  ہوسکتا ہے  ؟

اسی تاریخی دستاویزکا ایک بقیہ    حصہ مشہور  تاریخ  نگار  علامہ  واقدی  کی زبانی  ملاحظہ  فرمائیے  !

“ایلیاء ( بیت المقدس) کا سب  سے بڑ اعالم  اس وقت  شاہ روم  ہر قل  کے سرہانے  کھڑا تھا۔ اس نے بیان  کیا کہ  میں اس وقت رات کو  سوتا نہیں تھا  جب  تک کہ بیت المقدس کے سارے  دروازے  بند نہ کرلوں ۔ اس رات  میں نے حسب عادت  سارے دروازے بند  کردیے  لیکن ایک دروازہ  مجھ سے بند  نہ ہوسکا ۔  میں نے  اپنے عملہ  کے لوگوں کو بلالیا، ان سب  نے مل کر  کوشش کی مگر  وہ ان سے  بھی  بند نہ ہوسکا۔ دروازے  کے کواڑ  اپنی جگہ  سے حرکت  نہ کرسکے ۔ ایسے معلوم ہوتا ہے  تھا جیسے کسی پہاڑ  کو ہلارہے  ہیں ۔ میں نے  عاجز ہو کر  نجاروں  ( کار پینٹر  ز ) کو بلوایا۔ا نہوں نے   دیکھ کر کہا : ان کواڑوں  کے اوپر دروازوں   کا بوجھ  پڑگیا ہے،اب صبح  سے پہلے  اس کے بند  ہونے کی کوئی تدبیر نہیں ، صبح  ہم دیکھیں گے  کہ اس کے  لیے کیا کیاجائے ۔ میں مجبور   ہوکر لوٹ آیا ، دونوں   کواڑ  اسی طرح کھلے  رہے۔ صبح  ہوتے  ہی  میں پھر  اس دروازے  پر پہنچا  تو دیکھا  کہ دروازہ  مسجد  کے پاس ایک چٹان  میں روزن  ( سوراخ ) کیا ہوا ہے  اور ایسا محسوس  ہوتا ہے  کہ یہاں  کوئی جانور  باندھا گیا ہے ۔اسی وقت  میں نے  اپنے ساتھیوں  سے کہا کہ آج  اس دروازے  کو اللہ تعالیٰ  نے شاید  اس لیے  بند ہونے سے روکا  ہے  کہ کوئی  نبی یہاں  آنے والے تھے   اور اس رات   انہوں نے ہماری مسجد میں نماز پڑھی  ۔ “

( معارف القرآن : بتصرف  یسیر  : 5/424 فرید  بک ڈپو، تفسیر ابن کثیر  :4/ 115)

  1. سفر معراج  سے واپسی  کے بعد  صبح  جب  حضور ﷺ نے رات کا سارا ماجرا  مشرکین  مکہ کے سامنے  بیان کیا تو پہلے   تو انہوں نے  بے حد مذاق اڑایا  اور پھر راستے  کی نشانیاں  پوچھنے لگے ۔ حضور اکرم ﷺ نے ایک نشانی  اور شہادت  یہ بیان فرمائی : ” اس کی نشانی  یہ ہے کہ  میں جب  شام  کی طرف  بھاگا  جارہا تھا تو فلاں  وادی  میں فلاں قبیلے  کے قافلے پر گزرا تھا،ان کا ایک اونٹ  بھاگ گیاتھا۔ میں ے  ان کو اس کی نشاندہی  کی تھی ۔ سفر  سے واپسی   کے وقت  ضجناں میں  فلاں قبیلے کے قافلے پر پہنچا  تو میں   نے لوگوں  کو سوتا پایا، ان  کے  ایک  برتن میں پانی تھا  اور انہوں نے  اس کو ڈھانک  رکھاتھا، میں   نے ڈھکنا  اتار  کرا س  کا پانی پیا   پھر اسی  طرح  برتن ڈھانک  دیا۔   اس کی نشانی  یہ بھی  ہے کہ اس کا قافلہ اب بیضاء   سے  ثنیۃ التنعیم  کی  طرف آرہا ہے ، سب  سے آگے  ایک خاکی  رنگ  کا اونٹ  ہے ، اس پر دو بورے   لدے  ہوئے  ہیں :   ایک کالا  اور دوسرا  دھاری دار ہے  ۔ لوگ  ثنیۃ التنعیم   کی طرف دوڑے  تو اس اونٹ سے پہلے کوئی  اونٹ  نہیں ملا  جیسا کہ  آپ ﷺ نے فرمایاتھا  ۔ دوسروں  سے بھی پوچھا  جن کے  اونٹ کا بھاگنا  بیان فرمایاتھا،یہ لوگ  مکہ آچکے تھے  انہوں نے کہا :” واقعی  صحیح فرمایا ،ا س وادی  میں ہمارا اونٹ  بھاگ گیاتھا، ہم نے   ایک شخص کی آواز سنی  کہ وہ ہمیں  اونٹ کا بتارہا ہے۔ یہاں تک  کہ ہم نے اونٹ  کو پکڑ لیا۔”  ( جدید سیرت النبی :1 359، مولانا اسحاق ملتانی  )

معراج  محمدﷺ کی سائنسی  شہادتیں  :

  1. جرمنی کا آئن اسٹائن  دنیا کا عظیم سائنس دان  گزرا ہے ۔ نظریہ اضافیت  اور ایٹم بم  کا  موجد ہے ۔بعض  مسلم دانش وروں  نے واقعہ معراج  کی یہ توجیہ پیش کی ہے  کہ آئن  سٹائن  کے نظریہ  کے مطابق کسی بھی  مادی چیز کی تیز رفتاری  کی آخری  حد روشنی  یعنی  تین لاکھ  کلو میٹر فی سیکنڈ  کے برابر  ہے ۔اگر کوئی شخص اس رفتار  پر قابو پالے  تو وقت  اس کے لیے تھم  جائے گا ، کیونکہ  وقت  کی رفتار  بھی یہی ہے ۔ جس رفتار  سے  وقت چل رہا ہے  یہ شخص بھی ا سی  رفتار سے چلے گا  تو وقت  کا اس پر کوئی  اثر نہیں پڑے گا۔ حالانکہ  خود وہ شخص یہ محسوس کر رہا ہوگا  کہ میں سفر  کر رہا ہوں  اور جب  وہ واپس  اپنی جگہ  پر  آئے گا  تو وہی  وقت  ہوگا  جو وہ چھوڑ  کے گیا  تھا۔ اگر  یہ حقائق واقعتا  درست  ہیں تو واقعہ  معراج ،  سائنس کی رو سے  نہایت  واضح  حقیقت  کے طور پر سامنے آتا ہے  اور سائنسی  نکتہ  نظر  سے واقعہ  معراج میں تیز رفتار ی کے  حوالے  سے تقریبا کوئی اعتراض  نہیں رہتا  ۔
  2. فلاسفہ کا اس پر  اتفاق رہاہے  کہ حرکت  کی تیز رفتاری کی کوئی  حد مقرر  نہیں۔ مشرق میں بجلی  کوندتی  ہے  تو وہ لاکھوں  میل کی مسافت سیکنڈوں  میں طے  کر کے  مشرق میں  گرتی  ہے اور  راستے  کی کوئی  بڑی  سے بڑی  رکاوٹ  اس کی راہ میں حائل نہیں  ہوتی ۔انسانوں  کی بنائی ہوئی  مشینیں  ہزاروں  میل کی مسافت  طے کر کے  چاند، مریخ  اور زہرہ  تک پہنچ  گئیں ۔ان  خلائی  جہازوں  کی رفتار  میں اضافہ  ہی ہوتا  جارہا ہے  .ہوا چند سیکنڈ وں میں کتنی مسافت  طے کر لیتی ہے  اور یہ رفتار  کی آخری حد  ہے ۔کیا انہوں نے آنکھ   کی بصارت  کی رفتار  کا اندازہ  نہیں کیا؟  وہ تو  لمحہ   بھر میں  اس آسمان  تک پہنچ  جاتی  ہے جنہیں  وہ ابھی تک  نہیں پاسکے ۔ تو جب رفتار  کی کوئی حد  مقرر نہیں  تو واقعہ معراج  کی تیز رفتاری  پر شبہ کیوں   ؟
  3. اس دنیا میں کچھ واقعات  عام قوانین  فطرت سے  بالا بالا  وقوع پذیر  ہوجاتے ہیں ۔ چنانچہ  موجودہ سائنس Supernaturalاور  Supernormal واقعات  کو تسلیم  کر چکی  ہے۔ واقعہ   معراج،   انبیاء کرام  علیہم السلام   کے تمام معجزات  اور اولیائے کرام  کی کرامات  بھی ماورائے  فطرت  اور ماورائے  عقل  واقعات  ہیں۔  مستشرقین  اور اہل سائنس کو چاہئے  کہ غیر  جانب داری  اور حق شناسی  کا ثبوت  دیں اور  ان کے سامنے  گھٹنے  ٹیک دیں  !

اپنا تبصرہ بھیجیں