ڈاکٹر مبشر حسین رحمانی
منسٹر ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی، آئرلینڈ
میٹاورس اور ہماری شرعی ذمہ داری
آپ کی والدہ کھانا پکا رہی ہیں اور آپ سے کہتی ہیں کہ دکان سے ہرا دھنیا لے کرآجاؤ۔ آپ ایک بڑے شاپنگ مال میں سبزی کی دکان پراس مخصوص جگہ پر جائیں گے جہاں پر سبزیاں وغیرہ رکھی ہیں۔ پھر کافی ساری ہرے دھنیےکی گڈیوں میں سے آپ ایک ترو تازہ ہرے دھینے کی گڈی نکالیں گے، اس کو الٹ پلٹ کر دیکھیں گے، سونگھیں گے اور پھر جس ہرے دھنیے کی گڈی میں سے خوشبو آرہی ہو اور تروتازہ ہو اس کو خریدنے کیلئے اٹھا لیں گے۔ اب یہی دکان اگر انٹرنیٹ پر موجود ہے اور وہاں سے آپ نے ہرے دھنیے کی گڈی لینی ہے تو دکان کی ویب سائٹ پر آپ ہرے دھنیے کوسرچ کریں گے، پھر وہاں پر آپ کو ہرے دھنیے کی گڈی کی تصویر نظر آئے گی، آپ اس کو دیکھ کر آڈر کر دیں گے۔ مگر اس صورت میں آپ کو وہ احساس یا تجربہ حاصل نہیں ہوا جو کہ آپ کو خود دکان پر جاکر حاصل ہوتا یعنی آپ ہرے دھنیےکی گڈی کو سونگھتے، اس کی تازگی کو چیک کرتے اور پھر خریدتے۔نیزآئن لائن ویب سائٹ سے ہرے دھنیے کی گڈی آڈر کرنے پرآپ کو دکان دار کی منتخب کردہ ہرے دھنیے کی گڈی پر ہی انحصار کرنا پڑے گا۔پھرجب دکان دار آپ کے گھر پر وہ ہرے دھنیے کی گڈی پہنچائے گا تو آپ اس کی تازگی اور خوشبو کو دیکھتے ہوئےپسند نہ آنے پر واپس بھی کرسکتے ہیں ۔
سبزی بیچنے والا دکانداراگر اس سارے عمل میں یعنی اپنی ویب سائٹ پر تھوڑی جدّت لانا چاہے تو ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ دکان دار جتنی بھی ہرے دھنیے کی گڈیاں ہیں ان سب کی تصاویر اپنی دکان کی ویب سائٹ پرروزانہ صبح سویرے لگائے اور پھر صارف اس میں سے کوئی ہرے دھنیے کی گڈی منتخب کرے اور پھر وہ دکان دار اس ہرے دھنیے کی گڈی کو بیچنے کے بعد وہ تصویر وہاں سے ہٹا دے اور آپ کو بعینہٖ وہی گڈی لاکر دے جس کو آپ نے ویب سائٹ پر تصویر کے ذریعے منتخب کیاتھا۔اب اس خریدوفرخت میں تھوڑی جدّت تو آگئی مگر پھر بھی آپ وہ احساس یا تجربہ حاصل نہیں کرسکے جو کہ خود سبزی کی دکان پر جاکر حاصل ہوتا۔ نیز اس صورت میں آپ کو صرف ہرے دھنیے کی گڈی کی تصویر کا ایک رخ ہی نظر آیا یعنی دو جہتی یا ٹوڈائی مینشل تصویر ہی دیکھ سکے اور خوشبو بھی نہ سونگھ سکے۔
اب دکان دار اپنی ویب سائٹ پر مزید جدّت لے کر آتا ہے اور اب وہ دکان میں موجود تمام ہرے دھنیے کی گڈیوں کی تھری ڈی تصویر رکھتا ہے کہ جس کے ذریعے سے آپ ہرے دھنیے کی گڈی کو ہرزاویہ یعنی ۳۶۰ ڈگری کے زاویےسے دیکھ سکتے ہیں اور پھر اپنی مطلوبہ ہرے دھنیے کی گڈی کا انتخاب کرسکتے ہیں، مگر پھر بھی اس میں وہ احساس اور تجربہ حاصل نہ ہوگا جو کہ حقیقی طور پر دکان جاکر حاصل ہوتا۔ خیر دکان داراپنی ویب سائٹ پر مزید جدّت لے کر آتا ہے اور اب تھری ڈی تصاویر کے بجائے وہ تمام ہرے دھنیے کی گڈیوں کی دو منٹ کی ویڈیو بنا کر ویب سائٹ پر رکھتا ہے۔ اس طرح سے آپ کے سامنے ہر ہرے دھنیے کی گڈی کی صحیح صورت حال واضح ہو جائے گی اور آپ بلا جھجک اپنی معیار کی ہرے دھنیے کی گڈی منتخب کرسکتے ہیں۔مگر اب بھی وہ احساس اور تجربہ صارف کو حاصل نہ ہوگا جو کہ حقیقی طور پر دکان میں جاکر ہرے دھنیے کی گڈی لینے میں ہے۔
خیر اب دکان دار سینسر Sensors کا استعمال کرتے ہوئے انفرادی طور پرہر ہرے دھنیے کی گڈی کی خوشبو کو ریکارڈ کرتا ہے اور ویب سائٹ پر اس ہرے دھنیے کی گڈی کی ویڈیو کے ساتھ اس خوشبو کا کوڈ بھی رکھ دیتا ہے۔ جب بحیثیتِ صارف آپ ویب سائٹ پر جاتے ہیں اور آپ اس ہرے دھنیے کی گڈی کی ویڈیو دیکھتے ہیں اور اس کوڈ کو استعمال کرتے ہوئے خوشبو سونگھنے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ کو وہ خوشبو نہیں سنگھائی دے گی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ خوشبو کا کوڈ تو ویب سائٹ پر موجود ہے اور خوشبو ایک احساس ہے اور حسّی طور پر آپ اس کو سونگھ سکتے ہیں مگر وہ آپ تک حقیقی طور پرکمپیوٹر کے ذریعے منتقل تو نہ ہوگی۔اس مسئلہ کا حل نکالنے کیلئے وہ دکاندار اپنی ویب سائٹ پر یہ نوٹس لکھتا ہے کہ اگر آپ کو حقیقی تر احساس حاصل کرنا ہےتو آپ کے پاس جدید آلات ہونے چاہییں اور مختلف خوشبوں کا ایک پوری سلیکشن ہونی چاہیئے جو کہ آپ کے کمرے میں آپ کے کمپیوٹر کے ساتھ منسلک ہوں۔ پھر جب ویب سائٹ پر وہ کوڈ آپ استعمال کریں تو آپ کے کمرے میں آپ کے کمپیوٹر کے پاس رکھی ہوئی خوشبوں میں سے وہ خوشبو سلیکٹ کرے اور پھر آپ کے کمرے کی فضا وہی خوشبو سے معطر ہو گی جو کہ اس کوڈ میں لکھی ہے اور پھردکان سے دور بیٹھے آپ اس خوشبو کو اپنے کمرے میں سونگھ سکیں گے۔یعنی آسان الفاظ میں آپ اس ویب سائٹ پر گئے، ہرے دھنیے کی گڈی پر جیسے ہی آپ نے کلک کیا، ایک لائیو اسٹریم ویڈیو چل پڑی جس میں اس ہرے دھنیے کی گڈی کی لائیو یا براہ راست ویڈیو چلائی گی اور ساتھ ہی آپ کے کمرے میں وہی خوشبو مہک گئی جو کہ اس ہرے دھنیے کی تھی اور اس کیلئے نہایت ہی اعلیٰ قسم کے کمپیوٹر پروگرامز کاسینسر کے ساتھ استعمال کیا گیا۔
جی ہاں یہ ممکن ہے اور کچھ سالوں پہلے ایسی پروڈکٹ بازار میں لانچ بھی ہوچکی ہیں جیسے Aroma IoT, oPhone, Scente Machina وغیرہ جن کی مدد سے آپ اپنے موبائل فون سے مختلف اقسام کی خوشبوں کی مہک کو بطور میسیج کے بھی بھیج سکتے ہیں۔ مثلاً آپ نے ایک دوست کومیسج بھیجا اور ساتھ میں گلاب کے پھول کی خوشبو بھی بھیجی تو جیسے ہی وہ میسیج آپ کے دوست کےموبائل پر موصول ہوگا اس کے موبائل سے منسلک پہلے ہی موجود خوشبوں کے مجموعے میں سے وہ خوشبو مہکنا شروع ہوجائے گی جس کی آپ نے اپنے میسیج میں نشاندہی کی ہے۔یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ آپ میسیج کے ذریعے حسّی طور پر خوشبو منتقل نہیں کررہے بلکہ آپ گلاب کے پھول کی خوشبو کا ایک کوڈ اپنے میسیج کے ذریعے منتقل کررہے ہیں اور جیسے ہی وہ کوڈ دوسرے موبائل پر موصول ہوگا، اُس موبائل کے ساتھ الیکٹرونک سرکٹ موبائل کے ساتھ منسلک خوشبوں میں سے ایک خوشبو مہکانا شروع کردے گا۔ نیزاسی طریقے کے ذریعےآپ اپنے کمرے میں میلوں دور بیٹھے مختلف خوشبوں کو مہکا بھی سکتے ہیں اور اس کیلئے چیزوں کا انٹرنیٹ یعنی Internet of Things کا استعمال کرسکتے ہیں۔اب تو اس میں اتنی ترقی ہوگئی ہے کہ انڈر گریجوئیٹ کے طلباء اس طرح کے پروجیکٹ کرتے ہیں جن کے ذریعے سے محسوسات ، خوشبو وغیرہ کو منتقل (مجازی طور پر)کیا جاسکتا ہو اور ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے بالکل اصل حقیقت کے قریب جایا جاسکے۔مثلاً موبائل فون کے ذریعے سے آپ کسی دوسرے ملک میں رہتے ہوئے اپنے گھر کی لائٹوں کوکھول بند کرسکتے ہیں، پانی کی موٹر کو چلا سکتے ہیں، آپ کے گھر میں کون کون سے آلات کتنی بجلی خرچ کررہے ہیں یہ آپ منٹوں کے حساب سے دیکھ سکتےہیں اور ان آلات کو کھول بند کرتے ہوئے بجلی کی بچت کرسکتے ہیں۔
مستقبل کیلئے کمپیوٹر سائنسدانوں نے یہ سوچا ہے کہ ایک ورچول، ڈیجیٹل یا تخیلاتی دنیا ہوگی، جس میں ہر چیز ورچول ذریعے سے انٹرنیٹ پرظاہر کی جائے گی اور اس کو میٹا ورس کا نام دیا ہے۔ میٹا ورس Metaverse بنیادی طور پر ایک ڈیجیٹل تخیلاتی تھری ڈی دنیا یعنی ورچول دنیا کا نام ہے۔ آپ میں سے اگر کسی کو کمپیوٹر گیمز کھیلنے کا اتفاق ہوا ہو تو آپ کے علم میں ہوگا کہ اس کے اندر کچھ ڈیجیٹل کردار بنائے جاتے ہیں اور گیم کے اندر کے ماحول کو بالکل اصل زندگی کی مطابق ڈھالا جاتا ہے۔ جو کمپیوٹر گیم جتنا زیادہ حقیقی زندگی اور کرداروں سے مشابہت اختیار کرے گا وہ اتنا ہی اچھا گیم تصور کیا جائے گا۔اب اس گیم کی ورچول دنیا کو اگر ہم اعلیٰ قسم کے سائنسی آلات کے ساتھ جوڑ کر اس کو حقیقی دنیا سے جوڑیں تو یہ میٹاورس بن جاتا ہے اور اس کیلئے کافی ساری ٹیکنالوجیز کا استعمال کیا جاتا ہے جن میں ورچول رئیلیٹی، آگمنٹڈ رئیلیٹی ، سینسر، ٹیکٹائل انٹرنیٹ، ایکسٹینڈڈ رئیلیٹی، مصنوعی ذہانت، ٹیلی کمیونیکیشن، ڈیجیٹل ٹوئن، بلاک چین وغیرہ شامل ہیں۔
اوپر دی گئی مثال کے اندر میٹاورس کے تناظر میں یہ ہوگا کہ ایک انٹرنیٹ پر ورچول دنیا ہوگی اور اس ورچول دنیا میں ملک، شہر، سڑکیں، مکان، گاڑیاں، چوراہے، انسانی کردار جنہیں آواتار Avatar بھی کہا جاتا ہے موجود ہوں گےیعنی اصلی دنیا کی ہو بہُو ایک نقل بنائی جائے گی۔یعنی ابھی ہم شاپنگ کیلئے شاپنگ سینٹرز میں حسّی طور پر یا جسمانی طور پر جاتے ہیں۔ ٹیکنالوجی جس طرف جا رہی ہے اس میں ہم شاپنگ سینٹرز میں جائیں گے مگر ورچول شاپنگ سینٹرز کے اندر، یعنی انٹرنیٹ پر خریدوفروخت آہستہ آہستہ ورچول ورلڈ یا میٹا ورس کی طرف چلی جائے گی۔آپ کے ورچول آواتار ہوں گے جو کہ دوسرے آواتار وں کے ساتھ تعامل کریں گے اور اس ٹیکنالوجی کے اندر مصنوعی ذہانت کا استعمال بھی بہت عام ہوگا ۔اور میٹاورس پر جو خرید وفروخت ہوگی وہ کرپٹو کرنسی سے ہوگی، اوراین ایف ٹی کی مدد سے ڈیجیٹل اثاثوں کو محفوظ بنایا جائے گا اور ان کی خریدوفروخت کا ریکارڈ رکھا جائے گا۔اب وہ سبزی بیچنے والا بجائے اس کہ کہ اپنی ویب سائٹ بنائے، اب ورچول دنیا یعنی میٹا ورس میں اس کی باقاعدہ ایک ورچول سبزی کی دکان ہوگی اور وہ دکان ویسی ہی ہوگی جیسی کی اصلی ہو یعنی اس میں مختلف سبزیاں رکھی ہوئی نظر آرہی ہوں گی۔ اب صارف کا ورچول کردار یعنی آواتار روڈ پر چلتا ہوا اس دکان میں داخل ہوگا اور اس جگہ پر جائے گا جہاں پر ہرا دھنیا رکھا ہوا ہوگا اور اس کو اٹھا کر وہ نہ صرف یہ کہ دیکھ سکے گا بلکہ اس کی خوشبو بھی سونگھ سکے گا اور پھر وہ اپنی پسند کا تازہ ہرا دھنیا آڈر کردے گا۔ پھر وہ دکان دار اس کے گھر پر وہ اصلی ہرے دھنیے کی گڈی پہنچا دے گا۔
میٹاورس کو استعمال کرتے ہوئے کمپیوٹر سائنسدانوں کا ویژن یہ ہے کہ ورچول دنیا کو اصلی دنیا کے ساتھ جوڑا جائے اور انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کو وہ حقیقی احساس اور تجربہ دلایا جائے جو کہ ہم حقیقی اور اصلی دنیا میں محسوس کرتے ہیں۔یعنی ورچول دنیا میں حواس خمسہ بھی انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کو کسی حد تک محسوس ہوں گے اور اس کیلئے مختلف آلات جیسے Meta Quest 2 VR Headset کا استعمال ہوگا جو کہ اس وقت تقریباً ساڑھے چار سو امریکی ڈالر یعنی تقریباً ایک لاکھ پاکستانی روپے میں مل رہا ہے۔ گو کہ اس وقت یہ زیادہ تر کمپیوٹر گیم میں استعمال ہورہا ہے مگر کمپیوٹر سائنسدانوں کا ویژن اس سے کہیں آگے کا ہے۔مثلاً اگر میٹا ورس میں کسی نے آپ کو مکا مارا توآپ کو مکے لگنے کا احساس ہوگا اور اگر کوئی ڈاکٹر ریموٹ سرجری کرے تو اس کو ایسا محسوس ہوگا کہ وہ اصلی مریض کی سرجری کررہا ہے۔
سائنسی طور پر میٹاورس کے تناظرمیں ابھی بھی بہت کام کی ضرورت ہےاور بہت سارے سائنسی سوالات کےجوابات دینا باقی ہیں۔ دنیا بھر کے کمپیوٹر سائنسدان مختلف جہتوں سے اس میٹاورس ٹیکنالوجی پر کام کررہے ہیں کہ ورچول تخیلاتی دنیا کوحقیقی دنیا کے ساتھ جوڑا جائے اور اس میں ڈیجیٹل ٹوئن اور سائبر فیزیکل سسٹم ٹیکنالوجیز بھی شامل ہیں۔ اسی میٹاورس ٹیکنالوجی کو لیتے ہوئے بڑے بڑے سرمایہ دار پیسے بنانے لگ گئے ہیں۔ مثلاً میٹا ورس میں استعمال ہونے والے کپڑے، جوتے، ڈیجیٹل زمین، بندوقیں، اور دیگرڈیجیٹل اثاثوں کی خریدوفرخت شروع ہوگئی ہے اور یہ سارے ڈیجیٹل اثاثے محض ورچول، تخیلاتی اور ڈیجیٹل طور پر موجود ہیں اور یہ ڈیجیٹل اثاثے اصلی اور حقیقی دنیا کے اثاثوں ، کرداروں اور چیزوں کی نمائندگی نہیں کرتے۔اسی طرح مختلف کمپنیاں اپنی اپنی مصنوعات کا ڈیجیٹل ورژن میٹاورس کیلئے بنا رہی ہیں۔ مثلاً کپڑے اور جوتوں کی مشہور کمپنیاں ڈیجیٹل کپڑے اور جوتے میٹاورس کیلئے بنا رہی ہیں۔نیز میٹا ورس پر ڈیجیٹل زمین کی خریدوفروخت ہورہی ہے اور ایک ہی زمین کے اثاثے کو مختلف کمپنیاں این ایف ٹی بنا کر بیچ رہی ہیں اور ان کی قیمت لاکھوں بلکہ کڑوڑوں روپے تک پہنچ گئی ہے۔ اس سارے عمل سے سائنسی دنیا میں بھی کئی سوالات جنم لینے لگ گئے ہیں مثلاً ایک ہی شخصیت کے مختلف کردار اگر ورچول دنیا میں بنائےجائیں گے تو پرائیوسی کا خیال کس طریقے سے رکھا جائے گا؟ نیز کون اس ساری ورچول دنیا کو کنٹرول کرے گا؟ ان ورچول ڈیجیٹل اثاثوں کی حقیقی دنیا میں کیا حیثیت ہے جبکہ وہ حقیقی اثاثوں کی نمائندگی نہ کرتی ہوں۔
میٹاورس پر تعامل کرنے کیلئے ہمیں بنیادی طور پر دو چیزیں اچھی طرح سمجھنی ہوں گا۔ پہلی اہم بات تو یہ کہ جیسا کہ ہم نے مندرجہ بالا مثال میں بتایا کہ کوئی صارف کس طریقے سے میٹاورس کا استعمال کرتے ہوئے ہرے دھنیے کی گڈی کو انٹرنیٹ سے خرید سکتا ہے اور اس کو یہ خریداری کرتے وقت اصلی اور حقیقی دنیا کے قریب لایا جارہا ہےاور اس کو وہی احساس اور تجربہ دیا جارہا ہے جو کہ حقیقی دنیا میں خریداری کے وقت ہوتا ہے تاکہ صارف بہتر طریقے سے خریداری کرسکے۔ نیز اس مثال میں بالکل واضح ہے کہ میٹاورس میں ڈالا گیا ڈیجیٹل اثاثہ (ہرے دھنیے کی تصویر یا ویڈیو) حقیقی دنیا کے اثاثے یعنی اصلی ہرے دھنیے کی نمائندگی کرتی ہے اور یہ اسی صورت کے مشابہ ہےجس میں صارف ویب سائٹ سے خریداری کرتا ہے۔ اب اس صورت میں مفتیانِ کرام یہ ارشاد فرماتے ہیں اس طرح کی بیع و شراء (خریدوفروخت) اس صورت میں جائز ہوگی اگر شریعتِ مطہرہ کے متعین کردہ بیع و شراء کے اصولوں کو مدِ نظر رکھا جائے ۔یعنی بیع درست ہونے کے لئے مجموعی طور پرسات شرائط ہیں جو بیع کے منعقد اور صحیح ہونے کیلئے ضروری ہیں۔ پہلی شرط: مبیع یعنی بیچی جانے والی چیز مال ہو، دوسری شرط: مبیع مُتَقَوَّم ہو،تیسری شرط: مبیع موجود ہو، چوتھی شرط:مبیع مملوک ہو،پانچویں شرط: مبیع مقدور التسلم ہو، چھٹی شرط: مبیع معلوم ہو، ساتویں شرط: مبیع بائع کے قبضے میں ہو (حوالہ: فقہ البیوع – اسلام کا نظامِ خریدوفروخت، جلد ۱)۔اہم بات یہ ہے کہ ہم نے صرف مبیع یعنی بیچی جانے والی چیز کی شرائط ذکر کی ہیں اور اس کے علاوہ بھی شریعتِ مطہرہ میں بیع و شراء کے حوالے سے کئی شرائط موجود ہیں مثلاً بیع کی حقیقت اور اس کے منعقد ہونے کی شکلیں جن میں ایجاب وقبول کےاحکام، عاقدین سے متعلق احکام، مبیع وثمن سے متعلق احکام، صلبِ عقد سے متعلق شرائط وغیرہ شامل ہیں، جن پر عمل کرنا بیع و شراء کیلئے ضروری ہے اور مزید تفصیلات حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کی کتاب فقہ البیوع – اسلام کا نظامِ خریدوفروخت میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ اب ہم مثالوں کے ذریعے سے سمجھتے ہیں کہ مفتیانِ کرام کے مطابق کن صورتوں میں میٹاورس پر خریدوفروخت جائز نہ ہوگی۔یہ صرف کچھ صورتیں ہیں، ہم قارئین سے درخواست کرتے ہیں کہ مزید تفصیلات کیلئے مستند مفتیانِ کرام اور دارالافتاء سے رجوع کریں۔
مثال نمبر۱: میٹاورس پر ایک ورچول دکان پرہرے دھنیے کی گڈی کی تصویر موجود تھی جو کہ اصلی ہرے دھنیے کی نمائندگی کرتی تھی۔ اب کوئی شخص اس ہرے دھنیے کی تصویر کو خرید لے مگر بیع مکمل نہ ہوئی ہو یعنی خریدار کا اصلی ہرے دھنیے کی گڈی پر ملکیت اور قبضہ مکمل نہ ہوا ہو تو اس ڈیجیٹل اثاثے یعنی ہرے دھنیے کی گڈی کو (یعنی ڈیجیٹل اثاثے کو) آگے فروخت نہیں کیا جاسکتا اور شریعت میں اس طرح کی خریدوفروخت باطل قرار پائے گی۔
مثال نمبر ۲: میٹاورس پر ایک ورچول دکان پر ہرے دھنیے کی گڈی کی تصویر موجود تھی جو کہ اصلی ہرے دھنیے کی نمائندگی کرتی تھی۔ اب کوئی شخص اس ہرے دھنیے کی تصویر کو خرید لے اور خریدنے کیلئے کرپٹو کرنسی کا استعمال کرے (جو کہ میٹاورس پر خریداری کیلئے کسی حد تک لازمی ہے) تو اس صورت میں چونکہ کرپٹو کرنسی شرعی طور پرسرے سے مال ہی نہیں اس لئے وہ ثمن نہیں بن سکتا لہذا اس صورت میں بھی بیع باطل قرار پائے گی۔
یعنی خلاصہ یہ ہوا کہ ڈیجیٹل اثاثوں کی خریدوفروخت میں ،اگرچہ وہ حقیقی اثاثوں کی نمائندگی کرتے ہوں، شرعی طور پر بیع وشراء کی تمام شرائط کو پورا کیا جائے گا تب کہیں جاکر اس طرح کی بیع و شراء کی مفتیانِ کرام شریعت کے اصولوں کے مطابق اجازت دیں گے۔
دوسری اہم بات جس کی طرف ہمیں خصوصی توجہ کی ضرورت ہے وہ یہ صورت ہے جس میں ڈیجیٹل اثاثے حقیقی اور اصلی دنیا کےاثاثوں کی نمائندگی نہ کرتے ہوں یعنی بس میٹاورس پر وہ دیجیٹل اور ورچول طور پر موجود ہوں اور یہی وہ صورت ہے جو کہ میٹاورس میں تقریباً استعمال ہورہی ہے جو کہ سائنسدانوں کے اس ویژن سے یکسر مختلف ہے جو کہ اوپر ذکر کیا گیا۔یعنی ہرے دھنیے کی مثال کے تناظر میں سبزی کی ورچول دکان میں ہرے دھنیے کی گڈی موجود ہو مگر حقیقی دنیا میں وہ اصلی ہرے دھنیے کی نمائندگی نہ کرتی ہو۔ لہذا اس صورت میں اگر کوئی خریدار آکر اس طرح کی ہرے دھینے کی تصویر (جو کہ ایک این ایف ٹی ہوگا اور ایتھریم کی بلاک چین پر بنایا گیا ہوگا) کو خریدتا ہے تو اس طرح کی خرید وفروخت میں شرعی طور پرکئی شرائط کوپورا نہیں کیا گیا۔ یعنی راقم کو یہ کہتے ہوئے کوئی جھجک محسوس نہیں ہورہی کہ اس مثال کے تناظر میں بیع و شراء کی شرعی شرائط سرے سے پوری ہی نہیں ہورہیں۔ خیر، اول تو یہ کہ یہ معدوم کی بیع ہے، دوسرا یہ کہ یہ ہرے دھنیے کی تصویر شرعی طور پر مال کے زمرے میں نہیں آتی۔خلاصہ یہ کے اس ہرے دھنیے کی بیع کسی صورت شریعتِ مطہرہ میں جائز نہیں ہوسکتی۔ مروجہ میٹاورس میں بس اسی طرح کی بیع وشراء ہو رہی ہے۔
آپ حیران ہوں گے کہ اگر آپ صرف کسی مارکیٹ پلیس پر چلے جائیں مثلاً Open Sea تو وہاں پر لاکھوں بلکہ کڑوروں پاکستانی روپے کی مالیت کے ڈیجیٹل اثاثوں جن میں ڈیجیٹل کپڑے، ڈیجیٹل جوتے، ٹوپی، ہتھیار، ڈیجیٹل زمین وغیرہ شامل ہیں وہ خرید و فروخت کیلئے موجود ہیں اور لوگ جوق در جوق نہ صرف یہ کہ ان ڈیجیٹل اثاثوں کی تجارت کررہے ہیں بلکہ اس سے بہت زیادہ منافع بھی کما رہے ہیں اور حقیقی طور پر یہ ڈیجیٹل اثاثے محض فرضی اورتخیلاتی طور پر موجود ہیں جن کو میٹاورس پر استعمال کیا جارہا ہے۔
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ ہم نے اپنی دی گئی مثال میں میٹاورس کو ایک پورا افسانہ بنا دیا ہے اور اس افسانے میں ایک شخص کو میٹاورس پر ہرے دھنیے کی گڈی خریدتے ہوئے دکھایا ہےاور پھرمیٹاورس پر خریدی گئی ورچوئل ہرے دھنیے کا حقیقی دنیا کی ہرے دھنیے کی گڈی پر مطالبہ بھی کیا جارہا ہے تو یہ دنیا میں کہاں ہوتا ہے اور کون اسے عقلاً درست سمجھتا ہے یا میٹاورس پر اس خریداری کا یہ مطلب ہوتا ہے؟ دیکھیے سب سے پہلے تو یہ سمجھیے کہ اس طرح کی ورچوئل ہرے دھینے کا حقیقی دنیا کی ہرے دھنیے کی گڈی پر مطالبہ کرنا بالکل صحیح نہیں اور کوئی بھی اس کو عقلاً درست نہیں سمجھتا (جس کو ہم نے دوسری اہم بات میں واضح کیا ہے) ۔نیز اگریہ میٹاورس پر ہرے دھنیے کی گڈی اصلی دنیا کی ہرے دھنیے کی گڈی کی نمائندگی نہیں کرتی تو پھر کیا یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ میٹاورس پرکس ہرے دھنیےکی گڈی کی خریدوفروخت ہورہی ہے؟ ڈیجیٹل فرضی اور تخیلاتی ہرے دھنیے کی؟ بس سمجھ جائیے کہ جو حضرات اسطرح کی ورچوئل اثاثوں، کرپٹو کرنسی اور میٹا ورس پر خریدوفروخت کو جائز قرار دے رہے ہیں ان کو سائنسی طور پر سخت مغالطہ ہوا ہےاور ان کو اس کی سمجھ ہی نہیں کہ یہ خرید وفروخت محض ڈیجیٹل فرضی اور تخیلاتی دنیا میں ہورہی ہے اور اس کا حقیقی دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔
دیکھیے بکری کے پیٹ میں جو بچہ ہوتا ہے فقہاء کرام اس کی بیع کو جائز قرار نہیں دیتے حالانکہ پیٹ میں بچہ موجود ہے یعنی ”موجود مستور الحال“ کوبھی فقہاء کرام ”معدوم “قرار دے رہے ہیں اور یہاں پر یہ ڈیجیٹل اثاثہ حقیقت میں موجود ہی نہیں اور پھر بھی ”معدوم“ کو ”معدوم“ نہیں سمجھا جارہا، افسوس صد افسوس! اب آپ ہی فیصلہ کیجئے کہ کیا ”معدوم “چیز کی بیع جائز ہوگی؟
کلماتِ تشکر
میں اپنے شیخ اور استادِ محترم حضرت مولانامفتی محمد نعیم میمن صاحب دامت برکاتہم خلیفہ مجاز حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمتہ اللہ علیہ کا انتہائی تہہ دل سے مشکورہوں کہ انہوں نے ہمیشہ میری حوصلہ افزائی فرمائی اور خاص طور پر اس مضمون کو دیکھا، میری غلطیوں کی اصلاح فرمائی اور مجھے اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمایا جس سے اس مضمون کی افادیت بہت زیادہ بڑھ گئی الحمدللہ۔ میں اللہ پاک سے دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت میرے اس مضمون کو امتِ مسلمہ کیلئے باعث خیر و برکت بنائے ، میری اس ادنیٰ سی کاوش کو قبول فرمائےاور ذخیرہ آخرت بنائے، آمین۔
کچھ مصنف کے بارے میں
ڈاکٹر مبشر حسین رحمانی منسٹر ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی (MTU) آئرلینڈکے کمپیوٹر سائنس ڈیپارٹمنٹ میں لیکچرار ہیں اور پچھلے کئی سالوں سے بلاک چین کے موضوع پر تدریس و تحقیق انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے ۲۰۱۱ میں یونیورسٹی آف پیرسVI، فرانس سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے آٹھ کتابیں لکھیں ہیں جن میں سے دو کتابیں بلاک چین ٹیکنالوجی سے متعلق ہیں، جس میں سے ایک کتاب کو باقاعدہ ٹیکسٹ بک کے طور پر آئرلینڈ میں ماسٹرز کے نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ بلاک چین کے موضوع پر اُن کے دسیوں تحقیقی مقالے دنیا کے بہترین تحقیقی جرائد کے اندر شائع ہوچکے ہیں۔نیز دو طالبعلموں نےبلاک چین کے موضوع پر اُن کی سُپرویژن میں پی ایچ ڈی آسٹریلیا سے مکمل کی ہے۔ وہ کئی بہترین تحقیقی مقالوں کے ایوارڈز وصول کرچکے ہیں۔ اُن کو کمپیوٹر سائنس کے شعبےمیں اُن کی تحقیق کی بنیاد پر مسلسل تین سال یعنی سن ۲۰۲۰ ، سن ۲۰۲۱ اورسن ۲۰۲۲ میں دنیا کے ایک فیصد بہترین سائنسدانوں کی فہرست میں میں شامل کیا گیا ۔