موجودہ حالات میں ووٹ ڈالنے کا شرعی حکم

بسم اللہ حامداً و مصلیاً

مروجہ جمہوریت کے نظام میں ووٹ ڈالنے کا حق ہرلائق و نالائق اور ہر عالم و جاہل اور ہر دیندار اور بےدین کو ہوتا ہے اس لیےاس نظام ِانتخاب کا تعلق اس سے نہیں کہ کون امیدوار اسمبلی کا ممبر بننے کا حقدار ہے اور کون نہیں کیونکہ اہلیت کا فیصلہ پہلے ہوچکا ہوتا ہے۔ بلکہ اس کا تعلق اس سے ہے کہ لوگ کس کو ممبر بنانا پسند کرتے ہیں اور کس کو نہیں، خواہ اس کی وجہ علاقے کا جاگیردار ہونا ہو یا رشتےداری ہو یا کسی دینی و سیاسی جماعت سے وابستگی ہو یا اس سے کسی مالی منفعت کی تحصیل ہو یا دینی مقصد ہو یا سیکیولر مقصد ہو۔ ہمارے ہاں اگرچہ امیدواروں کی اہلیت کا کچھ معیار طے تو کیا جاتا ہے لیکن اول تو دین و دنیا دونوں کے اعتبار سے ناقص ہوتا ہے۔ دوسرے اس پر دیانتداری سے عمل نہیں۔ گویا وہ موم کی طرح ہے ذاتی مفادات کے لئے جیسے چاہو موڑ لو، دین کے نام پر جو معیار ہے اسے بھی کھیل بنا لیا جاتا ہے۔ عموماً اصل طاقت جاگیرداروں، بڑے سرمایہ داروں، اور سرداروں کی ہے۔ جن کی وابستگی اپنے مفادات سے ہوتی ہے الا ماشاء اللہ، اور ان کی خاطر وہ ملک و قوم کے دشمنوں سے بھی جاملتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ لوگ اپنی جماعت کا ساتھ دیتے خواہ وہ معاملہ ملک کے باشندوں کے حق میں مفید ہو یا مضر اور خواہ دین کے مخالف ہی ہو۔ یہی مخصوص طبقہ ہے جو کبھی اس جماعت میں جاتا ہے اور کبھی اس جماعت میں۔ یہ لوگ اپنی سیاست کے لئے خوب پیسہ خرچ کرتے ہیں اور پھر اسی سے خوب پیسہ کماتے ہیں۔ ان میں سے بعض لوگ تو عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے تنخواہ دار ہوتے ہیں۔

اسی منظر نامے میں ہمارے ہاں کچھ دینی جماعتیں ہیں اور کچھ خالص سیاسی ہیں دینی نہیں۔ ایسی صورت حال میں ووٹ کس کو دیں؟ اس کی تفصیل یہ ہے:

عام سیاسی جماعتوں میں چونکہ دین سے زیادہ تعلق نہیں ہے اس لیے ان میں دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ شر اور برائی کس میں زیادہ ہے اور کس میں کم ہے اور سیاسی دینی جماعتوں میں یہ دیکھنا ہے کہ کسی حلقے میں اس کی پوزیشن مضبوط ہے یا کمزور ہے؟

۱۔ اگر دینی جماعت کی پوزیشن مضبوط ہے تو اس کو ووٹ دیا جائے خواہ کوئی سی بھی ہوتا کہ اسمبلی میں دین کی آواز اٹھا سکے۔

۲۔اگر دینی جماعت کی پوزیشن کمزور ہے اور غالب گمان یہ ہے کہ اس کا نمائندہ جیت نہیں سکے گا تو اس کو ووٹ نہ دیا جائے۔ ایسی صورت میں اس سیاسی جماعت کو ووٹ دیا جائے جس کا شر دوسری جماعتوں سے کم ہو۔

۳۔  اگر دینی جماعت کا نمائندہ نہ ہو یا ہو تو سہی لیکن اس کی پوزیشن نہایت کمزور ہو اور ووٹ دینے والا دیانتداری سے اس نتیجے پر پہنچے کے ووٹ دینے کا کوئی فائدہ نہیں باقی جماعتیں تمام کی تمام شر میں برابر ہیں تو ایسی صورت میں ووٹ بالکل نہ دینے کی بھی گنجائش ہے۔

۴۔ اگر حلقے کا امیدوار ایسی جماعت سے ہو جس کا شر زیادہ ہو لیکن وہ خود شر نہیں اور بلا تفریق حلقے والوں کے مفادات کے لیےکام کرتا ہو اور حق بات آگے پہنچا سکتا ہے خواہ قبول ہو یا نہ ہو تو ایسے کو بھی ووٹ دیا جاسکتا ہے۔

نوٹ: یہاں ہماری بحث اس سے نہیں ہے کہ مروجہ جمہوریت اسلامی ہے یا نہیں؟ ہمارے پیش نظر یہ ہے کہ موجودہ نظام ہم پر مسلط کیا ہوا ہے اور فی الحال اس کو تبدیل کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں