متمتع دم شکر سے پہلے حلال ہوجائے اور وطن پاس آجائے تو کیا حکم ہے ؟

سوال:السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

ایک فقہی معاملے میں راہنمائی چاہیے تھی،مجھ سے کسی خاتون نے پوچھا ہے کہ وہ ،ان کے شوہراور ان کے نابالغ بچوں نے حج تمتع کیا تھا کچھ سال پہلے ، اور انہیں تمتع کے لیے دی جانے والی قربانی کا علم نہیں تھا ،نہ کسی نے کوئی ایسا ذکرکیا ۔(جیسا کہ سورت بقرہ آیت 196 میں آتا ہے )تو اب وہ کیا کرسکتی ہیں اس غلطی کے ازالے کے لیے ؟10 روزے جو رکھے جاتے ہیں اس قربانی کی جگہ ،ان کو ان روزوں کا بھی علم نہیں تھا۔اس لیے وہ بھی نہیں رکھے ۔

جواب عنایت فرمادیں ۔

جواب:

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ!

واضح رہے کہ حج تمتع(عمرہ اور حج ایک ہی سفر میں اس طرح کرنا کہ عمرہ کر کے احرام کھول کر ایام حج میں حج کی نیت کرنا) کی صورت میں بطور شکر ایک دم یعنی قربانی کرنا لازم ہوتی ہے ،جو ایام النحر (10،11،12 ذوالحج) میں ،حدودِ حرم میں کرنا لازم ہے ۔لیکن اگر کوئی شخص قربانی کی استطاعت نہ رکھے تو وہ قربانی کی جگہ دس روزے رکھے گا ،جس کی صورت یہ ہوگی کہ تین روزے یوم النحر کے آنے سے پہلے پہلے اورباقی سات روزے ایام النحر کے بعد رکھنے لازم ہیں خواہ وطن واپس آکر رکھ لے یا حج کے ارکان سے فراغت کے بعد قیام مکہ کے دوران ہی رکھ لے۔

مذکورہ صورت میں جب سائلہ اور ان کے شوہر نے نہ تو قربانی کی اور نہ ہی روزے رکھے تو اب ایک دم تو دم شکر (تمتع کی قربانی)کا لازم ہوگا۔جب کہ دوسرا دم ایام نحر میں قربانی نہ کرنے کی وجہ سے لازم ہوگا،جسے فقہ کی اصطلاح میں دمِ جنایت کہا جاتا ہے۔یہ دونوں دم حدودِ حرم میں ہی ادا کیے جائیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

(1) فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ(سورت بقرۃ :196)

ترجمہ:تم میں سے جو عمرے اور حج کے ساتھ فائدہ اٹھائے تو قربانی میں سے جو میسر ہو (کرے)پھر جو نہ پائے تو تین دن کے روزے حج کے دوران اور سات دن کے اس وقت جب تم حج سے واپس آجاؤ۔یہ پورے دس ہیں۔

(2) قال اللّٰہ تعالیٰ: {وَلَا تَحْلِقُوْا رُؤُوْسَکُمْ حَتّٰی یَبْلُغَ الْہَدْیُ مَحِلَّہٗ}

قال ابن جریر الطبراني: فإن کان أحرم بالحج فمحلہ یوم النحر … وإن ہو رجع لم یزل محرما حتی ینحر عنہ یوم النحر، فإن ہو بلغہ أن صاحبہ لم ینحر عنہ عاد محرما وبعث بہدي آخر، فواعد صاحبہ یوم النحر عنہ بمکۃ ویحل۔ (تفسیر الطبراني 3/ 366-67)

(3)وعلی المتمع دم إذا وجد ذٰلک، قال تعالی: {فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ اِلَی الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْہَدْیِ} [البقرۃ: 196]سئل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: أدناہ شاۃ و إنہ دم شکر۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ 3/ 626)

(4) وکذٰلک لو بعث الہدي وواعدہم أن یذبحوا عنہ في الحرم في یوم بعینہ ثم حل من إحرام علی ظن أنہم ذبحوا عنہ فیہ، ثم تبین أنہم لم یذبحوا فإنہ یکون محرما۔ (بدائع الصنائع / حکم الإحصار2/ 399 زکریا)

(5) ویختص ذبحہ بالمکان وہو الحرم، وبالزمان وہو أیام النحر حتی لو ذبح قبلہا لم یجز بالإجماع ولو ذبح بعدہا أجزأہ بالإجماع، ولکن کان تارکا للواجب عند الإمام یجب بین الرمي والحلق ولا آخر لہ في حق السقوط۔ (غنیۃ قدیم 128)

(6) ولو أخر القارن والمتمتع الذبح عن أیام النحر فعلیہ دم۔ (غنیۃ الناسک جدید279/قدیم 149 )

(7) إذا عجز القارن والمتمتع عن الہدي أو الصوم بأن کان شیخاً فانیا بقي علی ذمتہ ولا یجزئہ الفدیۃ عن الصوم۔ (غنیۃ جدید 210)

(8) عن مولی لابن عباس قال: تمتعت أن أنحر، وأخرت ہدیي حتی مضت الأیام، فسألت ابن عباس؟ فقال: اہد ہدیا لھدیک، وھدیا لما أخرت۔ (المصنف لابن أبی شیبۃ4/ 8-703 رقم: 15709)

فقط واللہ اعلم بالصواب

11/دسمبر/۲۰۲۱

۶/جمادی الاولیٰ/۱۴۴۳ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں