میت کو غسل دینا کا طریقہ، کنواری لڑکی کے انتقال پر اس کے سر پر مہندی لگانا اور سرخ دوپٹہ کروانا

سوال: السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
1۔ میت کو غسل کس طرح دیا جاتا ہے؟
2۔ کنواری بچی کا اگر انتقال ہوجائے تو کچھ لوگ اس کے سر پر مہندی لگاتے ہیں یا سرخ ڈوپٹہ کرواتے ہیں کیا ایسا کرنا درست ہے؟
3۔ اگر میت کے شرمگاہ پر بال ہوں تو کیا ان کی صفائی کی جاتی ہے یا نہیں؟

الجواب باسم ملھم الصواب
وعليكم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

1۔ میت کو غسل دینے کے لیے سب سے پہلے کسی تخت یا بڑے تختے کو اگر بتی یا عود، لوبان، وغیرہ سے تین، پانچ یا سات دفعہ چاروں طرف دھونی دے کر میت کو اس پر لٹادیں اور کوئی موٹا کپڑا ناف سے لے کر زانو تک اڑھا کر میت کے بدن سے کپڑے اتار لیں، (اس طور پر کہ میت کا ستر بھی نہ کھلے اور کپڑا اتنا باریک نہ ہو کہ گیلا ہونے کے بعد ستر نظر آئے) پھر میت کو استنجا کرائیں، لیکن اس کی رانوں اور شرم گاہ کو ہاتھ نہ لگائیں اور نہ اس پر نگاہ ڈالیں؛ بلکہ اپنے ہاتھ میں کوئی موٹا کپڑا لپیٹ لیں اور میت پر جو کپڑا پڑا ہے اس کے اندر ہاتھ ڈال کر استنجا کرائیں۔
پھر  میت کو وضو کرائیں جیسے نماز کے لیے وضو کیا جاتا ہے، مگر کلی کرانے اور ناک میں پانی ڈالنے کی ضرورت نہیں، ہاں اگر میت حیض، نفاس یا جنابت کی حالت میں ہے تو کلی کرانا اور ناک میں پانی ڈالنا چاہیے (اس کا طریقہ یہ ہے کہ نرم کپڑا یا روئی گیلی کرکے جس قدر سہولت سے ہوسکے منہ اور ناک کا اندرونی حصہ تر کردیا جائے) پہلےچہرہ پھر کہنیوں سمیت ہاتھ دھلائیں پھر سر کا مسح کرائیں، پھر پیر دھلائیں اور کپڑے کو تر کرکے دانتوں کو صاف کریں اور ناک کے سوراخوں میں کپڑا پھیر دیں، ناک، منہ اور کان میں روئی رکھ دیں؛ تاکہ پانی اندر نہ جانے پائے، پھر سر کو صابن وغیرہ سے اچھی طرح دھو دیں، پھر میت کو بائیں کروٹ پر لٹا کر بیری کے پتے ڈال کر، نیم گرم پانی، تین دفعہ سر سے پیر تک ڈالیں، یہاں تک کہ وہ پانی تخت کو لگے ہوئے میت کے جسم تک پہنچ جائے، پھر داہنی کروٹ پر لٹا کر، اسی طرح تین مرتبہ پانی ڈالیں، پھر میت کو کوئی شخص اپنے بدن سے ٹیک لگا کر بٹھائے اور پیٹ کو آہستہ آہستہ ملے اور دبائے، اگر نجاست نکلے تو اس کو صاف کردیں، پھر میت کو بائیں کروٹ پر لٹاکر، کافور والا پانی سر سے پیر تک تین دفعہ ڈالیں اور کسی صاف کپڑے سے بدن کو صاف کر دیں، اور پھر اسے کفن پہنادیں۔

2۔ جواب نمبر 1 میں جو غسل کا طریقہ ذکر کیا ہے وہ شادی شدہ اور کنوارے دونوں طرح کے لوگوں کے لیے ہے، کنواری لڑکی کے لیے کوئی الگ غسل کا طریقہ نہیں، لہذا کنواری لڑکی کے انتقال کے بعد اس کے سر پر مہندی لگانا یا سرخ ڈوپٹہ کروانا یہ شریعت سے ثابت نہیں اس سے اجتناب لازم ہے۔

3۔ میت کے کسی قسم کے بال کاٹنا درست نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
1۔ مختصر القدوری میں ہے:
”فإذا مات شدوا لحييته وغمضوا عينيه وإذا أرادوا غسله وضعوه على سرير وجعلوا على عورته خرقة ونزعوا ثيابه ووضئوة ولا يمضمض ولا يستنشق ثم يفيضون الماء عليه ويجمر سريره وترا ويغلى الماء بالسدر أو بالحرض فإن لم يكن فالماء القراح ويغتسل رأسه ولحيته بالخطمي ثم يضجع على شقه الأيسر فيغتسل بالماء والسدر حتى يرى أن الماء قد وصل إلى ما يلي التحت منه ثم يضجع على شقة الأيمن فيغتسل بالماء والسدر حتى يرى أن الماء قد وصل إلى ما يلي التحت منه ثم يجلسه ويسنده إليه ويمسح بطنه مسحا وفيقا فإن خرج منه شيء غسله ولا يعيد غسله ثم ينشفه بثوب ويجعله في أكفانه۔۔۔۔۔الخ۔“
(باب صلاۃ الجنائز،ص47،ط؛دار الکتب العلمیۃ)

2۔ البحرالرائق  میں ہے:
”(قوله: ولايسرح شعره ولحيته، ولايقص ظفره وشعره)؛ لأنها للزينة، وقد استغنى عنها، والظاهر أن هذا الصنيع لايجوز. قال في القنية: أما التزين بعد موتها والامتشاط وقطع الشعر لايجوز، والطيب يجوز“ (البحر الرائق: 5/278)

فقط واللہ تعالی اعلم بالصواب

8رجب 1444ھ
30 جنوری 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں