نماز جان بوجھ کے چھوڑنا

سوال۔کیا نماز چھوڑنے والے کو کافر کہنا جائز ہے؟

الجواب باسم ملھم بالصواب

اگر کوئی شخص جان بوجھ کر سستی کی وجہ سے نماز ترک کر دیتا ہے، لیکن نماز کی فرضیت کا عقیدہ رکھتا ہے تو  جمہور علماء کے نزدیک ایسے شخص کو نماز چھوڑنے کی وجہ سے کافر کہنا درست نہیں۔البتہ اگر کوئی شخص اس عقیدہ کے ساتھ نماز چھوڑتا ہے کہ نماز فرض ہی نہیں تو ایسا آدمی کافر ہے، اور اس کو کافر کہنا بھی غلط نہ ہوگا۔جن احادیث مبارکہ میں نماز چھوڑنے والے کو کافر کہا ہے تو ایک قول کے مطابق وہاں بھی یہی مراد ہے۔

———————————————————–

حوالہ جات :

قرآن کریم سے:

1..مُنِیبِینَ إِلَیْہِ وَاتَّقُوہُ وَأَقِیمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَکُونُوا مِنَ الْمُشْرِکِینَ․

(سورہٴ روم آیت: ۳۱)

ترجمہ: سب رجوع ہوکر اس (اللہ) کی طرف اور اس سے ڈرتے رہو اور قائم رکھو نماز اور مت ہو شرک کرنے والوں میں۔

احادیث مبارکہ سے :

1…ان بين الرجل بين الشرك و الكفر ترك الصللاة ..

( صحيح المسلم ، كتاب الايمان ، باب اطلاق اسم الكفر على من ترك الصلاة 290/1)

ترجمہ: بے شک آدمی ، اور شرک اور کفر کے درمیان فرق کرنے والی نماز ہے ۔

2…ولقوله صلى الله عليه وسلم:العهد الذي بيننا وبينهم الصلاة فمن تركها فقد كفر

(الترغيب و التره‍يب 215/1)

ترجمہ :ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان جو عہد ہے وہ نماز ہے لہذا جس نے نماز کو چھوڑ دیا اس نے کفر کا عمل کیا۔

3۔وعن عباس رضي الله تعالى عنه قال لما قام بصري قيل نداويك و تدع الصلاة اياما قال : لا ،ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال من ترك الصلاة لقي الله وهو عليه غضبان

( الترغيب والترهيب 215/1)

ترجمہ:۔ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فر ماتے ہیں کہ میری آنکھ میں کچھ تکلیف ہو گئی تھی ۔۔ معالج آیا اور کہا ہم آپ کا علاج کرتے ہیں لیکن کچھ دن تک نماز چھوڑنی ہو گی ۔ارشاد فرمایا : نہیں ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص ایک نماز بھی۔جان بوجھ کے چھوڑے گا اللہ تعالی سے ایسے ملے گا کہ اللہ تعالی اس پر ناراض ہوں گے۔

_______

کتب فقہ سے :

1۔’وتأولوا قوله صلى الله عليه وسلم: ’’بين العبد وبين الكفر ترك الصلاة‘‘ على معنى أنه يستحق بترك الصلاة عقوبة الكافر وهي القتل، أو أنه محمول على المستحل، أو على أنه قديؤول به إلى الكفر، أو أن فعله فعل الكفار، والله أعلم‘‘. 

(شرح النووي على مسلم 2/ 71):

2۔وَتَارِکُہَا عَمْدًا مَجَانَةً أَیْ تَکَاسُلا فَاسِقٌ۔۔

(رد المحتار علی الدر المختار 1/ 235 ط إحیاء التراث، الفتاوی الہندیة 1\50 ط دار الفکر)

3۔اگر کوئی شخص محض سستی کی وجہ سے نماز ترک کر دیتا ہے، لیکن نماز کی فرضیت کا عقیدہ رکھتا ہے تو  جمہور کے نزدیک ایسا آدمی نماز چھوڑنے کی وجہ سے کافر نہ ہو گا، اور اس کو کافر  کہنا درست نہیں ۔

ہاں! اگر کسی شخص کے بارے میں  معلوم ہو  کہ یہ  آدمی نماز کو اس اعتقاد کے ساتھ ترک کرتا ہے کہ نماز فرض ہی نہیں تو ایسا آدمی کافر ہے، اور اس کو کافر کہنا بھی غلط نہ ہوگا۔ 

( فتاویٰ مفتی محمود، 889/1

جمعیۃ پبلیکشنز)

والله اعلم بالصواب

15دسمبر 2021

10جمادى الاول 1442

اپنا تبصرہ بھیجیں