نشے کے عادی شوہرکا طلاق دینا

سوال: میرے گھر کی ملازمہ جس کا نام آصفہ ہے، اس کے شوہر نے کل رات 3 بجے اس کو طلاق دے دی ایک ساتھ تین دفعہ۔ اس کے شوہر کو نشہ کرنے کی عادت ہے لیکن یہ معلوم نہیں کہ کل رات کو وہ نشہ کی حالت میں تھا یا نہیں۔ کافی عرصے سے دونوں میاں بیوی میں جھگڑے چل رہے ہیں اور بیوی اپنی ماں کے گھر رہتی ہے اور شوہر گزشتہ پندرہ بیس دنوں سے بیوی کو گھر آنے کے لیے بول رہا تھا لیکن کل رات اچانک یہ واقعہ رونما ہوگیا۔کل رات اس واقعہ کے بعد اس کا اپنے شوہر سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ازراۓ کرم رہنمائی فرما دیجئے کہ طلاق ہوئی یا نہیں ہوئی۔
تنقیح : طلاق کے الفاظ کیا تھے۔
جواب تنقیح: طلاق دیتا ہوں ۔
الجواب باسم ملھم الصواب
واضح رہے کہ شراب پینا حرام اور گناہِ کبیرہ ہے، تاہم نشہ کی حالت میں دی ہوئی طلاق بھی واقع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ایک ہی مجلس میں دی گئی تین طلاقیں، شریعت کی نظر میں تین ہی ہوتی ہیں، اس کے بعد بیوی اپنے شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہو جاتی ہے۔ لہذا اگر شوہر نے واقعۃ اپنی بیوی کو تین بار طلاق دی ہے تو اس کی بیوی اس پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے۔ اب رجوع نہیں کرسکتے اور فی الحال دوبارہ نکاح بھی جائز نہیں ہے۔
_____________________________
حوالہ جات :
1.فَاِنۡ طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنۡۢ بَعۡدُ حَتّٰی تَنۡکِحَ زَوۡجًا غَیۡرَہٗ ؕ فَاِنۡ طَلَّقَہَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡہِمَاۤ اَنۡ یَّتَرَاجَعَاۤ اِنۡ ظَنَّاۤ اَنۡ یُّقِیۡمَا حُدُوۡدَ اللّٰہِ ؕ وَ تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللّٰہِ یُبَیِّنُہَا لِقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَ۔ (سورۃ البقرہ : 230)
ترجمہ : پھر اگر اس نے (تیسری مرتبہ) طلاق دے دی تو اس کے بعد وہ اس کے لئے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر کے ساتھ نکاح کر لے، پھر اگر وہ (دوسرا شوہر) بھی طلاق دے دے تو اب ان دونوں (یعنی پہلے شوہر اور اس عورت) پر کوئی گناہ نہ ہوگا اگر وہ (دوبارہ رشتۂ زوجیت میں) پلٹ جائیں بشرطیکہ دونوں یہ خیال کریں کہ (اب) وہ حدودِ الٰہی قائم رکھ سکیں گے، یہ اللہ کی (مقرر کردہ) حدود ہیں جنہیں وہ علم والوں کے لئے بیان فرماتا ہے.
2.طلاق السكران واقع إذا سكر من الخمر أو النبيذ. وهو مذهب أصحابنا رحمهم الله تعالى كذا في المحيط۔ (فتاوی الھندیہ: جلد1 صفحہ 353)
3.وبه ظهر أن المختار قولهما في جميع الأبواب فافهم. وبين في التحرير حكمه أنه إن كان سكره بطريق محرم لا يبطل تكليفه فتلزمه الأحكام وتصح عبارته من الطلاق والعتاق، والبيع والإقرار، وتزويج الصغار من كفء، والإقراض والاستقراض لأن العقل قائم، وإنما عرض فوات فهم الخطاب بمعصيته، فبقي في حق الإثم ووجوب القضاء۔ (فتاوی شامیہ: جلد3 صفحہ 239)
4.إن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية. (فتاوی الھندیہ، جلد1، صفحہ 473)
5.وطلاق السکران واقع اذا سکر من الخمر أو النبیذ وھو مذھب اصحابنا. (الفتاوی التاتارخانیہ: جلد 3،صفحہ 187)
6.ذہب جمہور الصحابة والتابعین ومن بعدہم من أئمة المسلمین الی أنہ یقع ثلاثاً. (فتح القدیر: جلد 3، صفحہ 469)
7. ان کان الطلاق ثلاثا لم تحل له حتی تنکح زوجا غیرہ نکاحا صحیحا و یدخل بھا ثم یطلقھا او یموت عنھا” کذافی الھدایہ. (فتاوی الھندیہ: جلد 1، صفحہ 473)
8.نشہ شراب کی حالت میں اگر کوئی شخص طلاق دے دےتو واقع ہوجائے گی۔ (فتاوی محمودیہ: جلد 12، صفحہ 285)
9.ایک مجلس میں تین طلاق دینا شرعا بہت مذموم ہے اور قبیح ہے… اس سے اجتناب لازم ہے لیکن اگر اسی طرح دے گا تب بھی بلاشبہ واقع ہوجائے گی۔ (فتاوی محمودیہ: جلد 12،صفحہ 410)
25جمادی الثانی 1444
17جنوری 2023

اپنا تبصرہ بھیجیں