نجاست کھانے والے جانور کی قربانی کا حکم

سوال:السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔

آجکل قربانی کے جانوروں کی خرید و فروخت عروج پر ہے۔ ایسے میں لوگ اس طرح کے جانور بھی قربانی کے لئے فروخت کر رہے ہیں جن کی پرورش کچرے یا کچرے سے ملنے والے پھل سبزیوں پر ہوتی ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ ایسے جانور جو نجس کھاتے ہوں وہ حرام ہیں تو ایسی خوراک والے جانوروں کے لئے کیا حکم جو کچرے پر پلتے ہیں۔

براہ مہربانی جلد جواب عنایت فرمادیں۔

جواب:وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ!

جواب سے پہلے بطور تمہید چند باتیں ملاحظہ ہوں:

1.جانور چونکہ شرعی احکامات کے مکلف نہیں ہیں، اس لیے ان کی خوراک میں حلال اور حرام وہ احکامات لاگو نہیں ہوتے جو انسانوں کے لیے ہیں۔

2.وہ جانور جو نجاست کھاتے ہوں اور نجاست کا اثر ان کے جسم و گوشت میں سرایت کرگیا ہوانہیں شریعت کی اصطلاح میں جلالہ کہاجاتا ہے، ان کی کراہت دائمی نہیں ہوتی ہے، بلکہ ایک خاص مدت کے لیے ہوتی ہے،اس مدت کے گزر جانے کے بعد ان کا کھانا بلا کراہت جائز ہوتا ہے۔

اب جواب ملاحظہ ہو:

مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں سوال میں ایک تو وہ صورت جس میں جانور کچرے سے ملنے والی سبزیاں کھاتے ہیں،یہ صورت جانور کو”جلالۃ” کے حکم میں داخل نہیں کرتی، کیوں کہ کچرے سے ملنے والی سبزیاں کھانے سے جانور کا جسم و گوشت بدبودار نہیں ہوتا۔

البتہ جس صورت میں جانور صرف نجاست کھاتا ہو اور نجاست کھانے کی بنا پر جسم سے بدبو آنے لگے تواس کا حکم یہ ہے کہ قربانی سے چند دن پہلے ایسے جانور کو باندھ دیا جائے اور اسے پاک خوراک دی جائے،یہاں تک کہ اس کے جسم سے بدبو ختم ہوجائے،اس طرح کرنے سے اس جانور کےگوشت میں کراہت ختم ہوجاتی ہے اورقربانی درست ہے۔

فقہاء کرام نے ہر جانور کے گوشت سے بدبو ختم کرنے کی مدت بھی بتائی ہے،چنانچہ اگر اونٹ ہوتو اسے چالیس دن ، گائے ، بیل ہو تو بیس دن ،بکری وغیرہ کو دس دن ، مرغی تین دن ،اور گوریاکو ایک دن روکا جائے ،اس کے بعد اس کے گوشت میں کراہت نہیں۔(کتاب الفتاویٰ:ج4)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) ’’عن نافع أن عبد الله بن عمر ، رضي الله عنهما أخبره أن الناس نزلوا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم أرض ثمود الحجر فاستقوا من بئرها واعتجنوا به فأمرهم رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يهريقوا ما استقوا من بئرها، وأن يعلفوا الإبل العجين وأمرهم أن يستقوا من البئر التي كان تردها الناقة‘‘(بخاری شریف:۴/ ۱۸۱)

(۲) ولو اکلت النجاسۃ وغیرھا بحیث لم ینتن لحمہا حلت وقال الشامی وعن ھذا الابأس بأکل الدجاجہ لانہ یختلط ولا یتغیر لحمہٗ وروی انہٗ علیہ السلام کان یأکل الدجاجۃ تجس ثلاثۃ ایام ثم تذبح فذلک علی سبیل التنزہ، زیلعی۔ (شامی: ۵؍۳۳۳) وفیہ ایضاً (ولینھا) لتولدہٖ من اللحم۔

(۳)’’الجلالۃ المکروھۃ التی إذا قربت و جدت منھا رائحۃ فلا تؤکل ولا یشرب لبنھا و لا یحمل علیھا و تلک حالھا و یکرہ بیعھا و ھبتھا و تلک حالھا ، و ذکر البقالی أن عرقھا نجس‘‘(ردالمحتار: ۹/۴۹۱ )

(۴) ’’الْجَدْيُ إذَا كَانَ يُرَبَّى بِلَبَنِ الْأَتَانِ ، وَالْخِنْزِيرِ إنْ اعْتَلَفَ أَيَّامًا فَلَا بَأْسَ لِأَنَّهُ بِمَنْزِلَةِ الْجَلَّالَةِ وَالْجَلَّالَةُ إذَا حُبِسَتْ أَيَّامًا فَعُلِفَتْ لَا بَأْسَ بِهَا فَكَذَا هَذَا ، كَذَا فِي الْفَتَاوَى الْكُبْرَى‘‘(الفتاویٰ الہندیہ:۵/۲۹۰)

فقط واللہ اعلم

اپنا تبصرہ بھیجیں