نکاح کے لئے ولی کی اجازت کا ہونا

سوال : ولی کون ہوتا ہے؟ اگر ولی آپ کے نکاح کے لئے راضی نا ہو کسی بھی جگہ سے نکاح کا پیغام آئے اسے یہ کہہ کر رد کر دے میری اولاد کی قسمت میں شادی نہیں ہے تو اس صورت میں اولاد خاص کر لڑکی کے لئے کیا راستہ ہے ؟
آپ ایک جگہ استخارہ کرتے ہیں تو وہ ٹھیک آتا ہے پھر آپ کے گھر والے کہتے ہیں کہ ہمیں ایک عالم نے کہا اگر اس جگہ تمہارا رشتہ ہوا تو تمہیں ایک سال میں طلاق ہو جائگی یا تمہاری موت ہو جائگی اسکی شریعت میں کیا حقیقت ہے ؟ اور جو ایسی باتوں پر یقین کرتے ہیں انکے لئے کیا حکم ہے؟

الجواب باسم ملھم الصواب

1: واضح رہے کہ شریعت مطہرہ نے نکاح کے معاملے میں لڑکی کو والدین کی رضامندی کا خیال رکھنے کی بہت ترغیب دی ہے ،اور ان کی رضا مندی کے بغیر نکاح کرنے کو ناپسند کیا ہے ،تاہم والدین کو بھی چاہیے کہ اگر لڑکی کو کوئی رشتہ پسند آجائے اور وہ دینی و دنیوی دونوں مصلحت کے خلاف نہ ہو تو والدین لڑکی کی پسند کا خیال رکھیں ،برادری اور قوم کے الگ ہونے کی وجہ سے منع نہ کریں –

لہذا صورت مسئلہ میں آپ پر لازم ہے کہ والدین کی رضامندی حاصل کرنے کی کوشش کریں، اگر وہ راضی نہ ہوں اور ان کا اعتراض کرنا بےجا ہو ، نیز حسب و نسب اور مالداری میں آپ کے گھر والوں سے کم تر نہ ہوں ،بلکہ برابر یا بہتر ہوں اور نکاح کو نبھانے کا پختہ ارادہ رکھتے ہوں, تو پھر مناسب مہر طے کر کے دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرنا ناجائز امور میں پڑ جانے سے بدرجہا بہتر ہے –

2: لڑکی اور لڑکے کے نکاح کرنے کا نابالغ ہونے کی حالت میں جس کو اختیار ہوتا ہے، وہ ولی کہلاتا ہے،کبھی تو وہ والد ہوتا ہے کبھی دادا،کبھی بھائی، کبھی چچا مختلف حالات کے اعتبار سے مختلف ولی بنتے رہتے ہیں،جس کی تفصیل حوالہ جات میں موجود ہے۔

3 :استخارہ میں خیر آجانے کے بعد اس پر عمل کر لینا چاہیے۔استخارہ کے ٹھیک آجانے کے بعد کسی بھی عالم کا اس طرح کا دعویٰ کرنا جائز نہیں کہ طلاق ہو جائے گی یا موت ہو جائے گی اور نا ہی اس پر یقین رکھنا جائز ہے یہ سب توہمات پرستی ہے اس پر یقین رکھنا ایمان کی کمزوری ہے۔

______________

حوالہ جات :

1 : وَ لَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ ۪ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ٠

(سورة المائده : 2 )

ترجمه :
اور نیکی اور پرہیزگاری ( کے کاموں ) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم ( کے کاموں ) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو ۔ بیشک اللہ ( نافرمانی کرنے والوں کو ) سخت سزا دینے والا ہے

2 : عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ لَمَّا انْقَضَتْ عِدَّةُ زَيْنَبَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِزَيْدٍ اذْكُرْهَا عَلَيَّ قَالَ زَيْدٌ فَانْطَلَقْتُ فَقُلْتُ يَا زَيْنَبُ أَبْشِرِي أَرْسَلَنِي إِلَيْكِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُكِ فَقَالَتْ مَا أَنَا بِصَانِعَةٍ شَيْئًا حَتَّى أَسْتَأْمِرَ رَبِّي فَقَامَتْ إِلَى مَسْجِدِهَا وَنَزَلَ الْقُرْآنُ وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ بِغَيْرِ أَمْرٍ٠

(نسائى شريف : 3253)

ترجمه :
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت زینب ( بنت جحش رضی اللہ عنہا ) کی عدت ختم ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے ( ان کے سابق خاوند ) زید ( بن حارثہ رضی اللہ عنہ ) سے فرمایا :’’ اسے میری طرف سے نکاح کا پیغام دو ۔‘‘ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں نے جا کر کہا : زینب ! خوش ہو جاؤ ‘ مجھے رسول اللہ ﷺ نے تیرے پاس نکاح کا پیغام دے کر بھیجا ہے ۔ وہ کہنے لگیں : میں کوئی فیصلہ نہیں کروں گی حتیٰ کہ اپنے رب تعالیٰ سے مشورہ کر لوں ۔ وہ اپنی نماز گاہ کی طرف اٹھیں اور ( نماز استخارہ شروع کر لی ۔ ) ادھر قرآن مجید ( کا حکم ) اتر آیا تو رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور ان کی اجازت کے بغیر ( ان کے حجرے میں ) داخل ہو گئے ۔

3 : وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «من وُلِدَ لَهُ وَلَدٌ فَلْيُحْسِنِ اسْمَهُ وَأَدَبَهُ فَإِذَا بَلَغَ فَلْيُزَوِّجْهُ فَإِنْ بَلَغَ وَلَمْ يُزَوِّجْهُ فَأَصَابَ إِثْمًا فَإِنَّمَا إثمه على أَبِيه»

(‌ مشکوۃ المصابيح : 3138)

ترجمه:
حضرت ابوسعید ؓ اور ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس کے ہاں بچہ پیدا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اس کا اچھا نام رکھے ، اسے ادب سکھائے اور جب وہ بالغ ہو جائے تو اس کی شادی کر دے ، اگر وہ بالغ ہو جائے اور وہ (والد) اس کی شادی نہ کرے اور وہ کسی گناہ (زنا وغیرہ) کا ارتکاب کر لے تو اس کا گناہ اس کے والد پر ہے –

5 : فنفذ نكاح حرة مكلفة بلا ولي، والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف من نفسه، وله أي للولي إذا كان عصبة الاعتراض في غير الكفوء٠

(در المختار مع رد المحتار كتاب النكاح باب الولى :4/155,156)

6 : فنفذ نكاح حرة مكلفة بلا ولي ) وهذا عند أبي حنيفة وأبي يوسف في ظاهر الرواية و كان ابويوسف أولاً يقول: إنه لا ينعقد إلا بولي إذا كان لها ولي ثم رجع وقال: إن كان الزوج كفوء الها جاز وإلا فلاء ثم رجع وقال: جاز سواء كان الزوج كلوها أولم يكن٠

(تبيين الحقائق كتاب النكاح باب الاولياء والاكفاء : 2/117)

7 : إختلف العلماء هل الولاية شرط من شروط صحة النكاح أم ليست بشرط ؟ فذهب مالك إلى أنه لا يكون نكاح إلا بولي، وانها شرط في الصحة. وفي رواية أشهب عنه، وبه قال الشافعي، وقال أبو حنيفة وزفر والشعبي والزهري: إذا عقدت المرأة نكاحها بغير ولى وكان كفؤا جاز، وفرق دارد بين البكر والثيب فقال باشتراط الولي في البكر وعدم اشتراطه في الثيب.

(بداية المجتهد لابن رشد كتاب النكاح فصل الأول في الاولياء : 535)

8: لڑکی اور لڑکے کے نکاح کرنے کا جس کو اختیار ہوتا ہے اسکو ولی کہتے ہیں
لڑکی اور لڑکے کا ولی سب سے پہلے اسکا باپ ہے اگر باپ نا ہو تو دادا وہ نا ہو تو پر دادا اگر یہ لوگ کوئی نا ہوں تو سگا بھائی سگا بھائی نہ ہو تو سوتیلا بھائی یعنی باپ شریک بھائی پھر بھتیجہ پھر بھتیجے کا لڑکا پھر بھتیجے کا پوتا ۔یہ لوگ نا ہوں تو سگا چچا پھر سوتیلا چچا یعنی باپ کا سوتیلا بھائی پھر سگے چچا کا لڑکا پھر اسکا پوتا پھر سوتیلے چچا کا لڑکا پھر اس کا پوتا یہ کوئی نا ہوں تو باپ کا چچا ولی ہے پھر اسکی اولاد اگر باپ کا چچا اسکے لڑکے پوتے پروتے کوئی نا ہوں تو دادا کا چچا پھر اسکے لڑکے پوتے پھر پروتے وغیرہ ۔ یہ کوئی نا ہوں تب ماں ولی ہے پھر دادی پھر نانی پھر نانا پھر حقیقی بہن پھر سوتیلی بہن جو باپ شریک ہو۔ پھر جو بھائی بہن ماں شریک ہوں پھر پھوپھی پھر مامو پھر خالہ وغیرہ –

(بہشتی زیور ولی کا بیان چوتھا حصہ : 182 )

9 : استخارے کی حقیقت ہے اللہ تعالیٰ سے خیر کا طلب کرنا اور اپنے معاملہ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دینا کہ اگر یہ بہتر ہو تو اللہ تعالیٰ میسر فرما دیں ،بہتر نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو ہٹا دیں استخارے کے بعد خواب آنا ضروری نہیں ہے بلکہ دل کا رجحان کافی ہے استخارے کے بعد جس طرف دل کا رجحان ہو اس کو اختیار کر لیا جائے اگر خدانخواستہ کام کرنے کے بعد محسوس ہو کہ یہ اچھا نہیں ہوا تو یوں سمجھئے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں اسی میں بہتری ہوگی کیونکہ بعض چیزیں بظاہر اچھی نظر آتی ہیں مگر وہ ہمارے حق میں بہتر نہیں ہوتیں اور بعض ناگوار ہوتی ہیں مگر ہمارے لئے انہی میں بہتری ہوتی ہے الغرض استخارے کی حقیقت کامل تفویض و توکل اور قضا و قدر کے فیصلوں پر رضامند ہو جانا ہے –

(اپ کے مسائل اور ان کا حل : 4/219,220)

واللہ اعلم بالصواب
5 جمادی الاولی 1444
30 نومبر 2022

اپنا تبصرہ بھیجیں