نیت نماز

سوال: 1۔نماز کی نیت کیسے کرتے ہیں؟
2۔کن الفاظ میں اس کے بارے میں بھی بتا دیں۔
3۔یہ سنت سے سے ثابت ہے؟ یا بس دل میں نیت ہو اور بس۔

الجواب باسم ملہم الصواب

1۔واضح رہے کہ نیت دراصل دل کے ارادے کانام ہے۔ نیت کے لیے زبان سے الفاظ کا اداکرنا ضروری نہیں۔
2۔نیت کرنے کا طریقہ یہ ہےکہ نماز شروع کرنے سے پہلے دل میں اس بات کا استحضار کرلیا جائے کہ میں فلاں وقت کی نماز اللہ کے لیے پڑھ رہا ہوں، تاہم اگر زبان سے کہہ بھی کہہ دے تو یہ بہتر ہے؛کیونکہ اس سے مزید استحضار پیدا ہوجائے گا۔
3۔سوال کے ساتھ منسلک پوسٹ میں جو الفاظ نیت کے طور پر لکھے گئے ہیں یعنی انی وجھت وجھی للذی فطر السموات والارض تو ان کا پڑھنا لازم نہیں، البتہ پڑھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
زبان سے نیت کرنے کی اجازت ہے لیکن خاص انہی الفاظ کو نیت سمجھا جائے اورزبان سے تلفظ کو ضروری سمجھا جائے تو اس صورت میں یہ بدعت ہوگی۔البتہ اگر کوئی استحضار کے لیے زبان سے نیت کے الفاظ کہتا ہےتو یہ بدعت نہ ہوگی بلکہ اس کو بدعت کہنا غلط ہوگا۔
———————————————–
حوالہ جات :
1.اِنِّىْ وَجَّهْتُ وَجْهِىَ لِلَّذِىْ فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضَ حَنِيْفًا ۖ وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۔
 (سورۃ انعام : 79)
سب سے یکسو ہو کر میں نے اپنے منہ کو اسی کی طرف متوجہ کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو بنایا، اور میں شرک کرنے والوں سے نہیں ہوں.
———————–
1۔”ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان اذا قام یصلی تطوعا ،قال:اللہ اکبر، وجھت وجھی للذی فطر السماوات والارض حنیفا وما انا من المشرکین ۔
(مشکوۃ المصابیح : جلد2،صفحہ 504)
———————-
1۔والمعتبر فیہا عمل القلب اللازم للإرادة فلا عبرة للذکر باللسان إن خالف القلب؛ لأنہ کلام لا نیة الخ (فتاوی شامی:جلد 2، صفحہ 91)

2۔والنية هي الإرادة والشرط أن يعلم بقلبه ‌أي ‌صلاة ‌يصلي أما الذكر باللسان فلا معتبر به ويحسن.
(الهداية: جلد 1،صفحہ 46)

3۔النیۃ وھی الارادۃ مطلق العلم ، والمعتبر فیھا عمل القلب للارادۃ، وھو ان یعلم بداھۃ ای صلاۃ یصلی، والتلفظ بھا مستحب۔۔۔ وکفی مطلق نیۃ الصلوۃ لنفل وسنۃ وتراویح علی المعتمد، اذ تعیینھا بوقوعھا وقت الشروع۔
(کنز الدقائق: جلد 1،صفحہ 21)

4۔والنیۃ بلا فاصل والشرط ان یعلم بقلبہ ای صلاۃیصلی،ویکفیہ مطلق النیۃ للنفل والسنتہ والتراویح، وللفرض شرط تعیینہ کالعصر مثلا۔
کنز الدقائق: جلد 1،صفحہ 475)

5۔النیۃ ارادۃ الدخول فی الصلاۃ۔۔ولا عبرۃ بالذکر باللسان فان فعلہ لتجتمع عزیمہ قلبہ فھو حسن۔
(الفتاوی الھندیہ: جلد 1،صفحہ 65)

6۔لا یشرط مع نیۃ القلب التلفظ فی جمیع العبادات۔
(الاشباہ النظائر : جلد 1، صفحہ 156)

7۔(و لايوجه) أي لايضم إلى الثناء قوله: إني وجهت وجهي إلى آخره خلافًا لأبي يوسف فإن عنده إذا فرغ من التكبير يقول: إني وجهت وجهي للذي … إلخ وعندهما لو قاله قبل التكبير لإحضار القلب فهو حسن.
(درر الحكام شرح غرر الأحكام: جلد 1، صفحہ 68)
———————
1۔دل سے نیت کرنا نماز کےصحیح ہونے کے لیے کافی ہے۔(زبان سے نیت کرنا ضروری نہیں)اور بدعت بھی نہیں۔
(جامع الفتاوی: جلد 5،صفحہ 268)

2۔نماز میں نیت ضروری ہے یعنی دل میں یہ بات پکی کرلے کہ فلاں وقت کی فرض یا سنت پڑھتا ہوں۔
(فتاوی محمودیہ: جلد 5،صفحہ 504)

3۔نیت اصل میں دل سے ہوتی ہے اگر زبان سے کچھ بھی نہ کہا اور صرف دل میں ارادہ کرکے اللہ اکبر کہہ دیا تب بھی درست ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا ضروری نہیں اور بدعت ممنوعہ بھی نہیں۔۔۔۔نیت تو مراد قلبی کا نام ہےوہ ادائے نماز کے لیے کافی ہے۔لوگوں کے قلوب پر عامۃ افکار کا ہجوم رہتا ہے اور وہ پوری یکسوئی کے ساتھ قلب کو حاضر نہیں کرپاتے،اس لیے زبان سے بھی الفاظ ادا کروائے جاتے ہیں تاکہ حضور قلب میں جس قدر کمی ہے وہ الفاظ کے ذریعے سے پوری ہوجائے۔اگر کوئی شخص احضار قلب پر قادر نہ ہو تو اس کے لیے الفاظ کا ادا کرلینا بھی کافی ہے۔
(فتاوی محمودیہ: جلد 5،صفحہ 506-508)
———————
واللہ اعلم بالصواب
23جنوری2023
1رجب 1444

اپنا تبصرہ بھیجیں