قسم کھانے کی مختلف صورتیں

کون سی قسم میں کفارہ لازم آتا ہے اور کس میں نہیں آتا؟

قسم تین طرح کی ہوتی ہے:

اوّل 1:  یہ کہ گزشتہ واقعہ پر جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھائے، مثلاً: قسم کھاکر یوں کہے کہ میں نے فلاں کام نہیں کیا حالانکہ اس نے کیا تھا محض الزام کو ٹالنے کے لئے جھوٹی قسم کھالی یا مثلاً: قسم کھاکر یوں کہا کہ فلاں آدمی نے یہ جرم کیا ہےحالانکہ اس بے چارے نے نہیں کیا تھا محض اس پر الزام دھرنے کے لئے جھوٹی قسم کھالی۔

ایسی جھوٹی قسم ”یمینِ غموس“ کہلاتی ہے، اور یہ سخت گناہِ کبیرہ ہے، اس کا وبال بڑا سخت ہے، اللہ تعالیٰ سے دن رات توبہ و اِستغفار کرے اور معافی مانگے، یہی اس کا کفارہ ہے، اس کے سوا کوئی کفارہ نہیں۔

دوم 2:  یہ کہ کسی گزشتہ واقعہ پر بے علمی کی وجہ سے جھوٹی قسم کھالے، مثلاً: قسم کھاکر کہا کہ زید آگیا ہے، حالانکہ زید نہیں آیا تھا، مگر اس کو دھوکا ہوا، اور اس نے یہ سمجھ کر کہ واقعی زید آگیا ہے، جھوٹی قسم کھالی، اس پر بھی کفارہ نہیں اور اس کو ”یمینِ لغو“ کہتے ہیں۔

سوم3  یہ کہ آئندہ زمانے میں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھالے، اور پھر قسم کو توڑ ڈالے، اس کو ”یمینِ منعقدہ“ کہتے ہیں، ایسی قسم توڑنے پر کفارہ لازم آتا ہے۔


مسئله: ( قسم توڑنے کا کفاره اس طرح سےہے
قسم توڑنے کا کفارہ ہے 10 دس محتاجوں کو 2 دو وقتہ کھانا کھلادے (یا اس کے بجائے ہر محتاج کو صدقہٴ فطر کی مقدار غلہ یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت دینا بھی صحیح ہے۔)، اگر اس کی ہمت نہ ہو تو 3 تین دن کے پے در پے روزے رکھے۔


* فتاوی عالمگیری:کتاب الایمان ،ج2 ص52 رشیدیه ، ابوداود شریف:ج2 ص106 ، کتاب الایمان
الدرالمختار مع ردالمحتار:ج3 ص3 ، سوره المائده آیت:89 *

اپنا تبصرہ بھیجیں