قتل کی دھمکی پر طلاق کا حکم

سوال:االسلام علیکم

ایک شخص جوغصے کی حالت میں یہ الفاظ بولتا ہے کہ اگر میں نے خون نہیں بہایا(کسی کو قتل نہیں کیا) اور میں گھر میں داخل ہوا تو میری بیوی کو طلاق ہے.پوچھنا یہ ہے کہ اس کے گھر میں داخل ہونے سے طلاق واقع ہوگی کہ نہیں؟اور طلاق رجعی ہوگی یا بائن؟اور ایک ہوگی یا تین؟

تنقیح

کیا سائل نےطلاق کا لفظ جب بولا تو نیت 1کی تھی یا 3 کی

جواب تنقیح

واضح رہے کہ طلاق کا لفظ بولتے وقت اس کے ذھن میں کسی خاص عدد کی نیت نہیں تھی۔

بینوا توجروا

        الجواب بعون الملک الوھاب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص نے قتل کیےبغیر گھر میں داخل ہونےپرطلاق کوموقوف کیاتھا لہذاجب بھی مذکورہ شخص شرط پر عمل کیے بغیر گھر میں داخل ہوگا تو اسی وقت اس کی بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوجائے گی اور طلاق رجعی کا حکم یہ ہے کہ اسے عدت کے اندر اندررجوع کا حق حاصل رہے گا، اگر عدت کے اندر اندر رجوع کرلیا تو نکاح برقرار رہےگا اور آئندہ کے لیے مذکورہ شخص کے پاس بقیہ دو طلاقوں کا حق باقی رہے گا۔

البتہ واضح رہے کہ قتل جیسے قبیح گناہ کے ساتھ طلاق کو معلق کرنا جائز نہیں اس سے بچنا لازم ہے اگر کسی نے طلاق کو معلق کر بھی دیا ہو تو تب بھی اس پر لازم ہے کہ قسم کو توڑے قتل سے بچے اور اس قسم کو پورا نہ کرے۔۔۔۔۔

حوالہ جات

1۔قال في الهندیة:

“و إذا أضافه إلی الشرط، وقع عقیبَ الشرط اتفاقاً، مثل أن یقول لامرأته: إن دخلت الدار، فأنت طالق.”

(الفتاوی الهندیة:باب الأیمان في الطلاق،الفصل الثالث في تعلیق الطلاق بکلمة إن و إذا و غیرها، ( 1/488 )رشیدیة)

2.”و إذا طلق الرجل امرأته تطليقةً رجعيةً أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض.”

(الفتاوی الهندیة، ( 1 / 470 )، رشیدیه)

فقط واللہ اعلم بالصواب

16جمادی الاخری1443ھ

20 جنوری2022ء

اپنا تبصرہ بھیجیں