قربانی کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی خود نوع انسان کی ۔حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں ہابیل اور قابیل نے قربانی کی تھی جس کا ذکر خود قرآن میں ہے ۔ محمد فرید وجدی کے مطابق حضرت نوح علیہ السلام نے ایک مذبح بنایاتھا جس میں وہ بہت سارے جانور اللہ کے نام پر قربان کرتے تھے ۔
اسرائیلی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی جانوروں کی قربانی کیا کرتے تھے ، توریت میں حضرت یعقوب علیہ السلام کی قربان گاہ کا تذکرہ ملتا ہے ، شریعت موسویہ میں قربانی کی اتنی ہی اہمیت حاصل رہی ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی اور اہم اور افضل عبادت ہے ہی نہیں۔ اس کے علاوہ دنیا کی دیگر تمام ہی اقوام وملک میں قربانی کا رواج رہاہے ۔ فرید وجدی صاحب کے بیان کے مطابق تو بعض اقوام نے قربانی میں اتنا غلو کیا کہ انسانوں کو ذبح کرنے لگے ۔چنانچہ اہل فارس، اہل روما ،اہل مصر ، فدینقیقں ،کنعانیوں کا یہی طریقہ رہا ہے ۔بعد میں ساتویں صدی عیسوی کے بعد یورپ میں “روحانی شیوخ کمیٹی ” کو اس کے ابطال کا حکم صادر کرنا پڑا، معلوم ہوا کہ قربانی کا طریقہ محض ایک ہزار سال پہلے ایجاد ہونے والی رسم نہیں۔ بلکہ اس کا رشتہ قدیم تریم مذہبی عبادات سے جڑتا ہے جو دنیا میں آنے والی تقریبا ہر قوم کا ایک مذہبی فریضہ رہا ہے ۔
اسلام نے قربانی کو ایک مذہبی شعار قراردیا ہے ۔قرآن واحادیث وکتب فقہ اس کے احکام سے بھری پڑی ہیں ۔قرآن میں متعدد جگہ قربانی کا ذکر ہے،جن میں سے بعض جگہ یہ وضاحت کی گئی ہے کہ قربانی کو اللہ پاک نے ہر امت کو قربانی کو اللہ پاک نے ہرامت کے لیے مذہبی عبادت بنایاہے اور بعض جگہ حضور ﷺ کے واسطے سے امت کو قربانی کرنے اور نماز عید پڑھنے کا حکم دیا ہے ۔حجۃ الوداع میں حضور ﷺ نے اپنے دست اقدس سے تریسٹھ (63) اونٹ ذبح کیے اور سینتیس (37) اونٹ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے اپنی ہی نیابت میں ذبح کرائے۔کیا اس کے بعد بھی یہ کہنے کی گنجائش رہ جاتی ہے کہ ” قربانی محض ایک ہزار سال پرانی رسم ہے “!!!
“قربانی” کے مخالف یہ کہتے ہیں کہ جانوروں کو بے دریغ ذبح کرنا بے رحمی ہے۔ہم انہیں سمجھا سکتے ہیں کہ قربانی اللہ پاک کا حکم ہے اور اللہ پاک ارحم الراحمین ہے۔سگی ماں سے بھی زیادہ مہربان اور رحم کرنے والا۔ جب اس نے قربانی کا حکم دے دیا تو ہم کون ہوتے ہیں کہ قربانی نہ کرکے اللہ پاک سے زیادہ رحم کے اظہار کا بھونڈا دعویٰ کریں ۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہر سال لاکھوں جانور ذبح ہوتے ہیں ،اگر ان کی قربانی روک دی جائے تو چند سالوں میں ان کی تعداد بے تحاشا بڑھ جائے گی اور ہر طرف جانور ہی جانور نظر آئیں گے ۔ رہی یہ بات کہ قربانی کرتے رہنے سے جانور کم ہوجائیں گے تو اس کے بارے میں یہ بات سمجھ لیں کہ ہزاروں سال وں سے قربانی ہوتی چلی آرہی ہے مکبھی جانوروں میں کمی نہیں ہوئی ، جب اللہ پاک نے جانورں کی قربانی کا حکم دی اہے تو وہی اس کا ضامن بھی ہے کہ قربانی ہونے والے جانوروں کی تعداد کم نہ ہونے دے اور ہر سال آسانی سے قربانی کے جانور مہیا ہوجائیں ، آج تک دنیا کا مشاہدہ یہی ہے کہ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں قربان ہونے والے جانور کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی ہیں،کبھی کم نہیں ہوتے جبکہ جو جانور قربان نہیں ہوتے ان کی نسلیں ختم ہونے کو ہیں ۔
تیسری بات یہ ہے کہ انہیں اگر اللہ پاک کی خاطر قربان نہ کیاجائے تو بوڑھے ہو کر سسک سسک کر نڈھال اور معذور ہو کر سخت کرب واذیت میں مریں گے ، نیز لوگوں کی مار پیٹ اور بے رحمی بھی برداشت کرنی پڑے گی ،کیا ان تمام سختیوں اور مشقوں سے یہ بہتر نہیں کہ سکون اور راحت سے عزت واکرام کے ساتھ اپنے خلاق کے نام پرقربان ہوجائیں ۔
بالوں میں جوئیں پڑجائیں تو انہیں مار ڈالا جاتا ہے ، زخم میں کیڑے پڑجائیں تو انہیں بھی مارڈالا جاتا ہے ، عقل پرست اسے بے رحمی سے کیوں تعبیر نہیں کرتے ؟ ملک الموت بڑے اولو العزم انبیاء ورسل اور بڑے بڑے اولیاء کرام کی روح قبض کرلیتے ہیں کیا یہ بھی بے رحمی ہے؟ فوج اپنی قوم اور وطن کی خاطر اپنی جان قربان کردیتی ہے۔اپنے قیمتی اعضاء قربان کردیتی ہے کیا یہ بے رحمی نہیں جو قوم اور قوم کے رہنما ان کے ساتھ کرتے ہیں ؟ جسم کا کوئی عضو مسموم ہوجائے تو اسے جسم کے دوسرے اعضاء کی اصلاح کی خاطر کاٹ دیاجاتا ہے ۔ یعنی جسم کا ایک عضو دوسرے اعحاء جسمانی کے لیے قربانی دے دیتا ہے عید اور تہوار میں مزدور طبقہ اپنی خوشیوں کو دوسروں پر قربان کردیتے ہیں ۔کیا یہ ان کے ساتھ بے رحمی نہیں ؟
دنیا تو قربانی پر ہی چل رہی ہے غریب قربانی دیتا ہے امیر کے لیے ،فوجی قربانی دیتا ہے اپنی قوم اور وطن کے لیے ،مجاہد قربانی دیتا ہے اپنے دین کی سر بلندی اور اپنے خدا کی رضا کے لیے ، جسم کا ایک عضو قربانی دیتا ہے دوسرے اعضاء کے لیے ۔والدین اورا ساتذہ قربانی دیتے ہیں اپنی اولاد اور شاگردوں کے لیے ،جب یہ قربانی بے رحمی نہیں تو جانور جنہیں خدا نے ( جو ان کو پیدا کرنے والا ہے ) انسان کے نفع کے لیے ہی پیدا کیا ہے ۔اگر انسان کے نفع کے لیے قربان ہوجائیں تو اس میں کون سی بے رحمی کی بات ہے ؟