رمضان :نفع کی دوڑ اک نفسیاتی کمزوری

رمضان کی آمد کے ساتھ ہی مارکیٹ میں بہت سی تبدیلیاں آجاتی ہیں ۔اوقات تبدیل ہوجاتے ہیں۔ موسم کی حدت اورپیاس کے شکار دکانداروں اورسلیز مینز کا لہجہ اورانداز گفتگوبھی کافی بدل جاتاہے۔بازار میں رمضان کااحترام واضح طورپر محسوس کیاجاسکتاہے۔لوگوں کی گفتگومیں باربار رمضان اورروزے کاواسطہ دیا جاتا ہے۔ افطار کا جگہ جگہ انتظام کیاجاتاہے۔چھ روزہ اوردس روزہ تراویح جگہ جگہ شروع کردی جاتی ہے،تاکہ تاجرحضرات

ختم قرآن کی سعادت جلد حاصل کرلیں اورپھر اپنے کاروبارکوسہولت سے وقت دے سکیں۔اسی طرح صدقات و خیرات میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آتاہے ۔ یہاں تک کی تمام باتیں تقریباسنت کے قریب ہی ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں راتوں کو زندہ رکھتے اورسخاوت میں تیز ہواسے بھی زیادہ فیاضی دکھاتے تھے۔ نیز احترام رمضان تو صحابہ کرام کے معاشرے کاخاصہ تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی روزے کی حالت میں تم سے لڑے تو جواب نہ دوبلکہ اس سے کہہ دوکہ میراروزہ ہے۔یعنی میں لڑائی نہیں کرسکتا۔
خلاصہ یہ کہ جانی اور مالی عبادات میں تو سنت کی نورانیت محسوس کی جاسکتی ہے، البتہ اصل کاروباری معاملات میں اس درجے کی پاکیزگی محسوس نہیں ہوتی جو رمضان یا کسی بھی مذہبی تہوارکا خاصہ ہوسکتاہے،مثلا: چند دن پہلے فروٹ اوردیگر اشیائے خورونو ش کو مارکیٹ سے غائب کر دیا جاتا ہے تاکہ ریٹ بڑھناشروع ہوجائیں۔رمضان کے خصوصی آئٹم، مثلا: بیسن ،سوجی ،میدہ ،چنے وغیرہ کے نرخ بہت بڑھ جاتے ہیں۔چکن اور گوشت کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہوتی ہیں۔عام سبزیاں تولوگ رمضان میں بالعموم کھاتے نہیں ،لیکن سموسوں اوررول کی فلنگ میں استعمال ہونے والی سبزیاں، مثلا: بند گوبھی اورشملہ مرچ بہت مہنگی کردی جاتی ہیں ۔
اسی طرح دودھ، دہی، پھینی ،سویاں وغیرہ کی قیمتیں بھی قوت خرید کو چیلنج کرنے لگتی ہیں۔بچوں کی گارمنٹس ،کپڑوں کی سلائی اورکپڑوں کے نرخ بھی متوسط اورغریب طبقہ کے ہوش اڑائے دیتے ہیں۔اسی طرح حکومت کی جانب سے لوڈ شیڈنگ اگر کم کی جاتی ہے تو بجلی کے نرخ بڑھادیے جاتے ہیں ۔غرض! خالص کاروباری معاملات میں سنت کا وہ رنگ نظرنہیں آتا جو عبادات میں محسوس ہوتاہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ تعلیم کہ لوگوں کی اسلام یاانسانیت کی بنیادپر خدمت کی جائے، خوا ب وخیال بن جاتی ہے۔

ایک دوسرے کو مالی طورپر نچوڑنے کا عزم ہرکاروباری سرگرمی میں نمایاں نظر آتا ہے۔ ظاہر ہے اس کیفیت کی، عبادات والی کیفیت سے کوئی دور کی بھی مناسبت نظر نہیں آتی۔اس طرز عمل کو کسی بھی زاویے سے سراہا نہیں جاسکتا۔شاید کسی کے ذہن میں آئے سیزن میں بھی نہ نچوڑیں تو پھرکب ؟کسی کے ذہن میں آسکتا ہے اسی طرح توہم نفع کماسکتے ہیں،ورنہ نفع کیسے کمائیں گے اور کاروبار کو وسعت کیسے حاصل ہوگی؟لیکن یہ سب خام خیالات ہیں۔ اگر سائنسی بنیادوں پر بھی غورکیاجائے تویہ بات بہت واضح ہے اس قسم کے رویوں کافائدہ عام تاجروں کو بالکل نہیں ہوتا۔اس کافائدہ صرف ان چند امیر ترین خاندانوں کوہوتاہے جن کی کسی خاص شعبے پر مکمل اجارہ داری ہے اور پورے ملک سے پیسہ کھنچ کھنچ کر بالاخرانہیں کے پاس پہنچتا ہے۔ ورنہ عام تاجراگر دگنی قیمت میں ایک چیز بیچتاہے تواسے بہت چیزیں مہنگی لینی بھی پڑتی ہیں ۔

گویاوہ چند لوگوں کو لوٹنے کے بعد بے شمارلٹیروں سے لٹتا بھی ہے ۔آپ ہی بتائیے وہ نفع میں ہے یانقصان میں؟حقیقت یہ ہے نفع کی دوڑ ہماری نفسیاتی کمزوری ہے جس سے صرف چند خاندان فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔اسی دوڑ کی وجہ سے مہنگائی پیداہوتی ہے۔جب مہنگائی ہوگی تو آپ چند چیزوں میں نفع کماکر بے شمار چیزوں میں نقصان اٹھارہے ہوں گے۔ صرف وہ امیرترین خاندان جو کسی خاص جنس کی

مثلا: چینی کی تمام تجارتی سرگرمیاں سے فائدہ اٹھاتے ہیں، ان کی بچت ہوگی ۔ متوسط درجے کے تمام تاجر گھاٹے میں رہتے ہیں۔لہذا اس بات کی ضرورت ہے کہ رمضان میں جیسے عبادات میں سنت کو اپنایا جاتا ہے، اسی طرح کاروباری سرگرمیوںمیں بھی سنت پر عمل کو سیکھااور اس پر عمل کیاجائے۔یہی ایک طریقہ ہے جس سے ہمارے بازاروں کو تجارتی کے ساتھ ساتھ فلاحی بھی بنایا جا سکتا ہے۔

 

 

اپنا تبصرہ بھیجیں