رضاعت کے سبب ایک ماہ کے حمل کا اسقاط کرنا

﴿ رجسٹر نمبر: ۱، فتویٰ نمبر: ۶۴﴾

سوال:- مجھے یہ پوچھنا تھا کہ میری ایک جاننے والی ہیں ان کا بچہ ابھی سال کا بھی نہیں ہوا تھا کہ دوبارہ ان کا حمل ٹھیر گیا انھیں کمزوری بھی تھی اور گھر کے کام کاج بھی بہت تھےوہ ڈاکٹر کے پاس گئیں کہ میرا بچہ ضائع کروادیں پر ڈاکٹر نے انکار کردیا پر انہوں نے کسی میڈیکل اسٹور سے ٹیبلٹ لے کر بچہ ضائع کروادیاوہ تقریبا ایک ماہ تھاان کو اللہ کا خوف بھی بہت ہےاب وہ پوچھ رہی ہیں کہ اس کا کیاکفارہ ہے اور جو انہوں نے کیا وہ ٹھیک ہے یا نہیں؟

جواب : اسقاط حمل شرعاً ناجائز اورناپسندیدہ عمل ہے ۔تاہم اگر حمل ڈاکٹرکی تشخیص یا ذاتی تجربے کی بنیاد پرعورت کی جسمانی کمزوری کی وجہ سے پہلے بچے کی رضاعت میں اذیت کا باعث بنے تو ایسی صورت میں عارضی طور پرموانع حمل تدابیر اختیار کرنے کی اجازت ہے۔نیز اگر حمل ٹھہر چکا ہو تو ضرورت کے وقت حمل میں جان پڑنے سے پہلے پہلے اس کو ساقط کروانے کی بھی گنجائش ہے۔

ضرورت سے مراد یہ ہے کہ حمل باقی رکھنے کی صورت میں عورت یا پہلے بچے یا خود اسی حمل کی جان یا صحت کو خطرہ ہو تو ایسی صورت میں چار ماہ سے قبل ساقط کروانے کی کی گنجائش ہے۔

صورت مسئولہ میں بھی اگر حمل کو باقی رکھنے سے ، پہلے بچے کی رضاعت شدید متاثر ہونے کا اندیشہ تھا تو چار ماہ سے پہلے اس حمل کو ساقط کروانے کی گنجائش تھی۔اس لیے اس کو ساقط کروانے کی وجہ سے خاتون گناہ گار نہیں ہوئی ۔تاہم احتیاطاً توبہ استغفار کرتی رہیں اور آئندہ ضرورت کے وقت اسقاط کی بجائے مانع حمل تدبیر اختیار کرنے کی کوشش کریں۔

(الفتاوی الہندیہ:کتاب الکراھیہ،ج۵ص۳۵۶) 

امراۃ مرضعۃ ظھر بھا الحبل وانقطع لبنھا وتخاف علی ولدھا الھلاک۔ ۔ ۔یباح لھا تعالج فی استنزال الدم ما دام نظفۃ او مظغۃ او علقۃ لم یخلق لھا عضو وخلقہ لا یستبین الا بعد مائۃ وعشرین یوما۔

(شامی :مطلب فی حکم اسقاط الحمل ذکریا ج۴ص۳۳۵)

قال ابن وھبان:فاباحۃ الاسقاط محمولۃ علی حالۃ العذر۔

(الدر المختار:2کتاب النکاح۳ص۱۷۶،دار الفکر البیروت)

وقالوا:یباح اسقاط الولد قبل اربعۃ اشھر۔ ۔ ۔الخ

(شامی ج۵ص۳۲۹کتاب الحظر والاباحۃ)

والنفخ مقدر بمائۃ وعشرین یومابالحدیث۔ ۔ الخ

فقط والله تعالیٰ اعلم

 صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر

اپنا تبصرہ بھیجیں