رؤیت ہلال میں غیر سرکاری کمیٹیوں کا شرعا اعتبار نہیں ہے

دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:113

کیا فرماتے ہیں علمائے دین متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ

مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی حکومت پاکستان کا تشکیل کردہ ادارہ ہے جس کی ذمہ داریوں میں ہلال  دیکھنا،  اس کے متعلق شہادت قبول کرنا اور رمضان ،عیدین اور دیگر اسلامی مہینوں کے لیے رؤیت ہلال کا اعلان کرنا شامل ہے .اور یہ بات واضح کرتا چلوں کہ حکومت  پاکستان کی قائم کردہ صوبائی اور مرکزی رؤیت ہلال کمیٹیوں میں تمام مسالک یعنی دیوبندی ، بریلوی،  اہل تشیع کے سرکردہ علماء حضرات شامل ہیں. ان کے علاوہ کمیٹی کے ساتھ فنی  ماہرین، جن میں  محکمہ موسمیات ، پاکستان نیوی اور اسپارکو کے نمائندے فنی معاونت کے لیے موجود ہوتے ہیں، علاوہ ازیں شہادتوں  کو ہر اعتبار سے پرکھنے اور تمام ارکان ، علمائے کرام اور فنی ماہرین سے مشاورت کے بعد ان سب کی متفقہ رائے کی روشنی میں تمام ممبران کی موجودگی میں چئیرمین مرکزی  رؤیت ہلال کمیٹی چاند کی رؤیت یا عدم رؤیت کا اعلان کرتے ہیں . علاوہ ازیں کراچی میں موجود مسلک  دیوبند کی معروف دینی درسگاہ جامعتہ الرشید میں قائم شعبہ فلکیات کے سربراہ سلطان عالم ہمیشہ چیئرمین مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں اور معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں ان کے تقریبا 50 مراکز قائم ہیں اور انکی ما ہانہ رپورٹس روزنامہ اسلام اور ضرب مؤمن میں باقاعدگی  سے شائع ہوتی ہے . اس کے علاوہ خود چیئرمین مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی چاند کے حتمی اعلان سے قبل مزید تشفی کے لیے جامعۃ الرشید کے شعبہ فلکیات کے ماہرین سے رابطے میں رہتے ہیں جس کی وجہ سے مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے سابقہ تمام اعلانات جامعۃ الرشید کی اعلان کردہ تاریخ سے موافقت رکھتے ہیں . جبکہ مسجد قاسم علی خان کے علماء کا اعلان رؤیت جامعۃ الرشید کی اعلان کردہ تاریخ سے عموما ایک دن پہلے ہوتا ہے.

ادھر صوبہ خیبر پختون خواہ کے کچھ اضلاع میں بعض غیر سرکاری کمیٹیاں  بشمول  مسجد قاسم علی خان کے حکومتی کمیٹی کے علی الرغم  لوگوں سے شہادتیں وصول کرتے ہیں اور رمضان اور عیدین کا اعلان کرتے ہیں .ان حضرات کے اعلان کے بموجب ان علاقوں کے لوگ روزے  رکھنا شروع کرتے ہیں اور عیدین مناتے ہیں ، حالانکہ  پشاور ، مردان اور چارسدہ جہاں ہر سال چاند کے پہلے نظر آنے کا اعلان کردیا جاتا ہے یہ وہ علاقے ہیں جو جغرافیائی لحاظ سےصوبہ سندھ  کے ساحلی علاقوں کراچی اور بدین وغیرہ کے بنسبت مشرق میں ہیں جہاں سورج مغربی علاقوں (کراچی  وغیرہ)  کے بنسبت آدھا گھنٹہ پہلے غروب ہوتا ہے اور مغربی علاقوں میں آدھا گھنٹہ بعدغروب  ہوتا ہے (جس کی وجہ سے کراچی میں چاند کی عمر پشاور کے چاند کی عمر سے آدھا گھنٹہ بڑھ جاتا ہے ) تو اس لحاظ سے کراچی والوں کو چاند دیکھنے کا امکان بنسبت پشاور والوں کے زیادہ ہونا چاہیے حالانکہ  پشاور وغیرہ میں اکثر عام اور ان پڑھ لوگوں کا چاند دیکھنے کے باوجود کراچی میں ماہرین فلکیات کو اپنی کوششوں سمیت نظر نہیں آتاجو کہ  سوچنے کی بات ہے.  اس تناظر میں چند سوالات حل طلب ہیں:

(١) کیا ریاست کی طرف سے مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی اور صوبائی اور ضلعی سطح پر زونل سرکاری کمیٹیوں کے ہوتے ہوئے ایسی  غیر سرکاری کمیٹیاں قائم کرنا جائز ہے ؟ یہ حضرات جو عام لوگوں سے شہادتیں اکثر بغیر جانچ پڑتال کے اور بعض دفعہ صرف فون پر(جس میں  شاہد کے حالات کا کچھ پتہ نہیں ہوتا)  وصول کرتے ہیں اور ہلال عیدو رمضان  کا اعلان کرتے ہیں کیا ان لوگوں کا اعلان شرعی قاضی کے اعلان کے حکم میں ہو گا ؟ اگر نہیں تو ان کے لیے اس طرح کے اعلانات کرنا جائز ہے یانہیں؟مزید برآں عام لوگوں کے لئے ان کے اعلان پر عمل کرنا جائز ہے یا نہیں؟  نیز کیا  رؤیت ہلال کی شہادت قبول کرنے کیلئے دارالقضاء  شرط ہے یا نہیں؟

(٢)جن علاقوں میں ان غیر سرکاری کمیٹیوں کے اعلان پر اکثر لوگ روزہ رکھیں یا عید منائیں تو کسی فرد کے  اسی علاقے میں شخصی  طور پر مرکزی حکومتی کمیٹی پر اعتماد کرتے ہوئے ان کی مخالفت جائز ہے یا نہیں ؟ یا یہ کہ وہ شخص تو روزہ مرکزی ہلال کمیٹی کے اعلان کے موافق( ان پر  اعتماد کرتے ہوئے)  رکھیں لیکن مجبورا( اپنے گاؤں اور گھر والوں کے ساتھ عدم اتفاق اورخفگان سے بچنے کے لئے ) عید غیر سرکاری کمیٹی کے اعلان کے مطابق کریں تو کیا ایسا کر سکتا ہے یا نہیں؟

(٣)بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان حضرات کے اعلان کے حساب سے شوال کا مہینہ ٣١  دن کا ہو جاتا ہے .بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس دن یہ لوگ رؤیت کا اعلان کرتے ہیں اس کے ایک روز بعد بھی رؤیت نہیں ہو پاتی  اور سرکاری کمیٹی عدم رؤیت کا اعلان کرتی ہے تو اب  ان کے اعلان پر جن لوگوں نے  عید منائی ہے ان پر قضا واجب ہے یا نہیں؟

معتبرات فقہ حنفی   کی تصریحات کی روشنی میں مفصل جواب تحریر فرما کر شکریہ کا موقع دیں.

نوٹ:  استفتاء کے ساتھ مفتی تقی عثمانی صاحب کا ایک رسالہ بھی منسلک کردیا ہے جس میں انہوں نے رؤیت ہلال کمیٹی پاکستان کی تائید کی ہے؛ ملاحظہ ہو:

بندہ محمد سلیمان خان خادم شعبہ تجوید

مدرسہ مرکزی دارالقراء بہادریہ کوہاٹ شھر

جمعہ، ٩  رمضان١٤٣٦

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب حامدا ومصلیا

(١)ریاست کی طرف سے مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی اور اس کی ذیلی صوبائی کمیٹی کے ہوتے ہوئے متوازی غیر سرکاری کمیٹیوں کا شرعا  کوئی اعتبار نہیں ہے، اور نہ ان کے فیصلوں کے مطابق عمل کرنا اور کروانا درست ہے،  کیونکہ ریاست کی طرف سے جو مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی قائم ہے اس کی حیثیت قاضی کی ہے اور شرعا چاند کی رویت کے اعلان کی ولایت اسے ہی حاصل ہے ، لہذا اگر مرکزی کمیٹی رمضان یا عید کے چاند نظر آنے کا اعلان کرےتو یہ فیصلہ ہےاور اس کا حکم یہ ہے کہ اس فیصلے کے مطابق عمل کرنا تمام  اہل پاکستان کے لئے ضروری ہےاور اس کے خلاف  کرنا جائز نہیں ہے.

لہذا علمائے کرام کو بھی چاہئے کہ وہ عوام کو مرکزی کمیٹی کے اعلان کے مطابق عمل کروانے کی کوشش کریں ، کیونکہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کو ولایت عامہ حاصل ہے جس کی وجہ سے وہ شہادتوں کو وصول کر سکتی ہے جو عیدین اور بعض صورتوں میں رمضان کے لیے ضروری ہے ،نیز مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے اعلان کے مطابق عمل کرنے سے امت فتنہ و انتشار سے بچ جاتی ہے، اس کے  برخلاف متوازی غیر  سرکاری کمیٹیوں کو چونکہ ولایت  عامہ حاصل نہیں اس لیے وہ  شہادتوں کو وصول نہیں کر سکتیں،  نیز متوازی کمیٹیوں کے اعلانات کے مطابق عمل کرنے سے عوام میں فتنہ و انتشار پیدا ہوتا ہے، قتل و قتال  تک نوبت آجاتی ہے، لوگ  دین اور اہل دین کے بارے میں شبہات کا شکار ہو جاتے ہیں اور سوئے ظن میں مبتلا ہوجاتے ہیں جس کا مشاہدہ ہر سال رمضان اور عیدین کے موقع پران علاقوں  میں ہوتا ہے جہاں متوازی کمیٹیاں بنی ہوئی ہیں. (مستفاد من التبويب : ٥٣/ ١٥٤٣ )

رؤیت ہلال  کی شہادت قبول ہونے کے لیے دیگر شرائط کے ساتھ ساتھ مجلس قضاء  کا ہونا بھی شرط ہے.(مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیے رسالہ ” رؤیت ہلال”  مولفہ  حضرت مولانا محمد شفیع عثمانی صاحب نوراللہ مرقدہٗ)

(٢)مسؤلہ  صورت میں ان لوگوں پر مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے اعلان کے مطابق روزہ اور عید کرنا لازم ہے ، کیونکہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کو پورے ملک میں ولایت حاصل ہے،  اس لیے اس کا اعلان پورے ملک کے لوگوں کے لئے حجت ہے ، جبکہ متوازی غیر سرکاری کمیٹیوں کے پاس ولایت نہیں ہے، لہذا ان کا اعلان بھی عام لوگوں کے حق میں حجت نہیں ہے،  اور اس کے مطابق عمل کرنا بھی لازم نہیں ہے ،اس سلسلے میں علمائے کرام اور پڑھے لکھے لوگوں کو چاہیے کہ وہ حکمت اور بصیرت کے ساتھ دوسرے لوگوں کو بھی مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے اعلان کے مطابق عمل کروانے کی کوشش کریں،  نہ کہ غیر سرکاری کمیٹیوں کی موافقت کرکے غلط طرز عمل کی مزید تائید کریں.

(٣)صورت مسئولہ میں جب سرکاری طور پر مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی نے عید کا چاند نظر نہ آنے کا اعلان کیا ، اس کے با وجود جن لوگوں نے غیر سرکاری متوازی کمیٹیوں کے اعلان کے مطابق عید منائی ہے ، ان کے ذمہ لازم ہے کہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی  کے اعلان  عید کے حساب سے ان کے  جتنے روزے ضائع ہوئے ہیں ، ان کی قضا ء کریں.

صحیح البخاری(٩/٦٣)

حاشیہ ابن عابدین (رد المحتار) (٥/٤٢٢)

الدر المختار(٢/٣٨٦)

حاشیہ ابن عابدین (رد المحتار) (٢/٣٨٧)

فتح القدیر للکمال ابن الہمام(٢/٣٢٥)

بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع(٦/٢٧٧)

الدر المختار(٢/٣٨٤)

حاشیہ ابن عابدین (رد المحتار) (٢/٣٨٤)

مراقی الفلاح شرح نور الایضاح(ص:٢٤١)

تبیین الحقائق شرح  کنز الدقائق(١/٣١٨)

واللہ سبحانہ اعلم بالصواب

محمد ابوبکر غفراللہ لہ

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی

٢٤-١١-١٤٣٦ھ

٩-٩-٢٠١٥ء

پی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/548433968859186/

اپنا تبصرہ بھیجیں