سادات کیلئےمجبوری کی حالت میں زکوٰۃ لیناجائزہےیانہیں

سوال:کیافرماتےہیں علماءکرام ومفتیان عظام اس بارےمیں کہ ایک بیوہ خاتون معذورجسمانی جواپنےکسی کام کوخود نہ کرسکیں حادثےکےسبب معذورہوئیں، عیال دارہیں اورکوئی زمین جائیداد ذاتی نہ وراثتی ہے،کرایہ کامکان ہے،بڑابیٹاذہنی ونفسیاتی امراض کاشکارہے،جسکی دیکھ بھال علاج معالجہ،کھانا وغیرہ اورادویات نفسیاتی صبح ودوپہر شام وقت  پراپنے سامنےکھلاناہوتاہےاس لئےکہ نفسیاتی مریض ادویات پھینک دیتےہیں ، ان دونوں حضرات کی دیکھ بھال کفالت تیمارداری اورتمام اشیاءکاحصول وقت پر ہوناضروری ہے چھوٹابیٹایہ سارےکام انجام دیتاہےجس میں والدہ صاحبہ کوصاف ستھرا کرنااورکھانا کھلاناوغیرہ کےامورداخل ہیں تمام وقت 24گھنٹےمیں 18گھنٹےصرف ہوتےہیں روزی روزگارختم ہوچکا ہے،

کیاایسےحالت میں ان کوزکوٰۃ وعطیات کی رقم دی جاسکتی ہےیاان پرصَرف کی جاسکتی ہے؟ انتہائی مصائب اورمشکلات کاشکارہیں کوئی ذریعہ وسیلہ باقی نہیں رہاہے سوائےاللہ  رب العالمین کے آپ حضرات سےشرعی احکامات معلوم کرنے ہیں ؟

نوٹ: بیوہ   معذورخاتون سادات میں سےہیں۔ 

واضح رہےکہ زکوٰۃ ہرمستحق کودی جاسکتی ہے،اورمستحق وہ ہےجوساڑھے باون تولہ چاندی یا  اسکےبرابرسونا،ضرورت سےزائد نقدی یاسازوسامان وغیرہ کامالک نہ ہو،البتہ سیدکو زکوٰۃ دینادرست  نہیں ۔(۱) 

 

جیساکہ فتاوٰی شامی وعالمگیری میں ہے:

   الفتاوى الهندية – (1 / 187)

(مِنْهَا الْفَقِيرُ) وَهُوَ مَنْ لَهُ أَدْنَى شَيْءٍ وَهُوَ مَا دُونَ النِّصَابِ أَوْ قَدْرُ نِصَابٍ غَيْرُ نَامٍ،………….(و)لاالی ابنی ھاشم…….                      (فتاوٰی شامی۲/۳۵۰)

            لہذاصورتِ مسئولہ میں مذکورہ بیوہ خاتون چونکہ سادات میں سےہیں ،اس لئےان کیلئےزکوٰۃلینا درست نہیں ہے،البتہ مسلمانوں کوضرورت مند  سید کی اعانت زکوٰۃ کےعلاوہ عطیات وغیرہ کی موات سےکرنی چاہیئے ،

نیزیہ کہ اگرمذکورہ خاتون کی اولاد سید نہیں ہے اورمستحق بھی ہےتواس کیلئے زکوٰۃ لینا درست ہے پھروہ اپنی والدہ پربھی خرچ کرسکیں گے واضح رہےکہ شرعاً نسب نامہ باپ کی طرف سےچلتا ہے ماں کی طرف سےنہیں۔(۲)

چنانچہ فتاوٰی شامی (6/685)میں ہے:

قَالَ فِي الْهِنْدِيَّةِ: وَلَوْ أَوْصَى لِأَهْلِ بَيْتِهِ يَدْخُلُ فِيهِ مَنْ جَمَعَهُ وَإِيَّاهُمْ أَقْصَى أَبٍ فِي الْإِسْلَامِ

التخريج

(۱)فتح القدير للمحقق ابن الهمام الحنفي – (4 / 180)

( قَوْلُهُ وَالْفَقِيرُ مَنْ لَهُ أَدْنَى شَيْءٍ ) وَهُوَ مَا دُونَ النِّصَابِ أَوْ قَدْرُ نِصَابٍ غَيْرَ نَامٍ وَهُوَ مُسْتَغْرَقٌ فِي الْحَاجَةِ وَالْمِسْكِينُ مَنْ لَا شَيْءَ لَهُ فَيَحْتَاجُ لِلْمَسْأَلَةِ لِقُوتِهِ أَوْ مَا يُوَارِي بَدَنَهُ وَيَحِلُّ لَهُ ذَلِكَ بِخِلَافِ الْأَوَّلِ حَيْثُ لَا تَحِلُّ الْمَسْأَلَةُ لَهُ فَإِنَّهَا لَا تَحِلُّ لِمَنْ يَمْلِكُ قُوتَ يَوْمِهِ بَعْدَ سُتْرَةِ بَدَنِهِ ، وَعِنْدَ بَعْضِهِمْ : لَا تَحِلُّ لِمَنْ كَانَ كَسُوبًا أَوْ يَمْلِكُ خَمْسِينَ دِرْهَمًا                                           

البحر الرائق، دارالكتاب الاسلامي – (2 / 258)

(قَوْلُهُ هُوَ الْفَقِيرُ وَالْمِسْكِينُ، وَهُوَ أَسْوَأُ حَالًا مِنْ الْفَقِيرِ) أَيْ الْمَصْرِفُ الْفَقِيرُ وَالْمِسْكِينُ وَالْمِسْكِينُ أَدْنَى حَالًا وَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا فِي الْهِدَايَةِ وَغَيْرِهَا بِأَنَّ الْفَقِيرَ مَنْ لَهُ أَدْنَى شَيْءٍ وَالْمِسْكِينُ مَنْ لَا شَيْءَ لَهُ وَقِيلَ عَلَى الْعَكْسِ وَلِكُلٍّ وَجْهٌ وَالْأَوَّلُ هُوَ الْأَصَحُّ، وَهُوَ الْمَذْهَبُ كَذَا فِي الْكَافِي وَالْأَوْلَى أَنْ يُفَسَّرَ الْفَقِيرُ بِمَنْ لَهُ مَا دُونَ النِّصَابِ كَمَا فِي النُّقَايَةِ أَخْذًا مِنْ قَوْلِهِمْ يَجُوزُ دَفْعُ الزَّكَاةِ إلَى مَنْ يَمْلِكُ مَا دُونَ النِّصَابِ أَوْ قَدْرَ نِصَابٍ غَيْرِ تَامٍّ، وَهُوَ مُسْتَغْرِقٌ فِي الْحَاجَةِ، وَلَا خِلَافَ فِي أَنَّهُمَا صِنْفَانِ هُوَ الصَّحِيحُ؛……….. (قَوْلُهُ وَبَنِي هَاشِمٍ وَمَوَالِيهِمْ) أَيْ لَا يَجُوزُ الدَّفْعُ لَهُمْ لِحَدِيثِ الْبُخَارِيِّ «نَحْنُ أَهْلَ بَيْتٍ لَا تَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَةُ» وَلِحَدِيثِ أَبِي دَاوُد «مَوْلَى الْقَوْمِ مِنْ أَنْفُسِهِمْ، وَإِنَّا لَا تَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَةُ» قَدْ أَطْلَقَ فِي بَنِي هَاشِمٍ فَشَمِلَ مَنْ كَانَ نَاصِرًا لِلنَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – وَمَنْ لَمْ يَكُنْ نَاصِرًا لَهُ مِنْهُمْ كَوَلَدِ أَبِي لَهَبٍ فَيَدْخُلُ مَنْ أَسْلَمَ مِنْهُمْ فِي حُرْمَةِ الصَّدَقَةِ لِكَوْنِهِ هَاشِمِيًّا، فَإِنَّ تَحْرِيمَ الصَّدَقَةِ حُكْمٌ يَخْتَصُّ بِالْقَرَابَةِ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ لَا بِالنُّصْرَةِ كَذَا فِي غَايَةِ الْبَيَانِ

فتح القدير للمحقق ابن الهمام الحنفي – (4 / 208)

( وَلَا يَدْفَعُ إلَى بَنِي هَاشِمٍ ) لِقَوْلِهِ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ { يَا بَنِي هَاشِمٍ إنَّ اللَّهَ تَعَالَى حَرَّمَ عَلَيْكُمْ غُسَالَةَ النَّاسِ وَأَوْسَاخِهِمْ وَعَوَّضَكُمْ مِنْهَا بِخُمْسِ الْخُمْسِ } بِخِلَافِ التَّطَوُّعِ ، لِأَنَّ الْمَالَ هَاهُنَا كَالْمَاءِ يَتَدَنَّسُ بِإِسْقَاطِ الْفَرْضِ. أَمَّا التَّطَوُّعُ فَبِمَنْزِلَةِ التَّبَرُّدِ بِالْمَاءِ .

 (۲)البحر الرائق، دارالكتاب الاسلامي – (8 / 508)

وَكُلُّ مَنْ يَتَّصِلُ بِهِ مِنْ قِبَلِ آبَائِهِ إلَى أَقْصَى أَبٍ فِي الْإِسْلَامِ فَهُوَ مِنْ أَهْلِ بَيْتِ نِسْبَتِهِ فَيَدْخُلُ تَحْتَ الْوَصِيَّةِ وَلَا يَدْخُلُ تَحْتَ الْوَصِيَّةِ أَوْلَادُ الْبَنَاتِ

قره عين الأخيار لتكملة رد المحتار علي الدر المختار – (7 / 268)

قَالَ فِي الْهِنْدِيَّةِ: وَلَوْ أَوْصَى لِأَهْلِ بَيْتِهِ يَدْخُلُ فِيهِ مَنْ جَمَعَهُ وَإِيَّاهُمْ أَقْصَى أَبٍ فِي الْإِسْلَامِ، حَتَّى إنَّ الْمُوصِيَ لَوْ كَانَ عَلَوِيًّا أَوْ عَبَّاسِيًّا يَدْخُلُ فِيهِ كُلُّ مَنْ يُنْسَبُ إلَى عَلِيٍّ أَوْ الْعَبَّاسِ مِنْ قِبَلِ الْأَبِ لَا مَنْ يُنْسَبُ مِنْ قِبَلِ الْأُمِّ.

اپنا تبصرہ بھیجیں