صفر المظفر

صفر عربی زبان کا لفظ ہے – یہ صفر سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں “خالی ہونا”-چونکہ لوگ زمانہ جاھلیت میں لوگ قتال کیلئے نکل جایا کرتے تھے اور ان کے گھر خالی پڑے رہتے تھے اسی وجہ سے اس ماہ کا نام صفر رکھ دیا گیا-(غیاث اللغات)

زمانہ جاھلیت میں اور آ ج بھی اکثر لوگ صفر کے مہینے کو منحوس سمجھتے ہیں-بلکہ آ سمان سے بلائیں اور آ فات نازل ہونے والا مہینہ سمجھتے ہیں اسی وجہ سے اس ماہ میں خوشی کرنا مثلاً شادی بیاہ وغیرہ کرنا معیوب سمجھتے ہیں-جبکہ اسلامی اعتبار سے اس ماہ سے کوئ نحوست وابستہ نہیں ہے اسی لئے اس ماہ کو صفر المظفر یعنی خیر اور بھلائی والا مہینہ کہا جاتا ہے-

“صفر کیا ہے”

اہل عرب کا گمان یہ تھا کہ صفر سے مراد وہ سانپ ہے جو انسان کے پیٹ میں ہوتا ہے کو بھوک کی حالت میں انسان کو ڈستا اور کاٹتا رہتا ہے چنانچہ بھوک کی حالت میں جو تکلیف ہوتی ہے وہ اسی کے ڈسنے سے ہوتی ہے-

حضرت امام مالک رحمہ اللّٰہ علیہ کا بیان ہے کہ ایام جاہلیت میں لوگ ماہ صفر کو ایک سال حلال اور ایک سال حرام ٹھرالیا کرتے تھے یعنی محرم الحرام میں جنگو جدل حرام سمجھتے تھے٫بڑھا کر صفر کو اس میں شامل کر دیتے اور کبھی صفر کو محرم سے علیحدہ قرار دےکر محترم مہینوں سے اسکو خارج کر کے جنگو جدال کو مباح سمجھتے تھے (مرقات)

“تیرہ تیزی”

بعض بلکہ اکثر لوگ صفر کے مہینہ کی ابتدائی تیرہ تاریخ کو خاص طور پر منحوس سمجھتے ہیں اور 13تاریخ کو چنے اور دال وغیرہ ابال کر یا چوری بنا کر تقسیم کرتے ہیں تاکہ بلائیں ٹل جائیں-یہ سب باتیں بے اصل ہیں-

“انکشاف اسلامی”

حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا”کہ مرض کا لگ جانا آلو اور صفر کی نحوست یہ سب باتیں بے حقیقت ہیں اور جذامی شخص سے اس طرح بچو اور پرہیز کرو جس طرح ببر شیر سے بچتے ہو-(صحیح بخآری)

حضرت جابر رضی اللّٰہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا”مرض لگ جانا٫صفراورغول بیابانی سب خیالات ہیں انکی کوئ حقیقت نہیں-(مسلم )

لا عدوی”

چھوت کی بیماری کے بارے میں زمانہ جاھلیت میں کہا جاتا تھا کہ بیمار کے پاس بیٹھنے یا اسکے ساتھ کھانے پینے سے اسکی بیماری تندرست آدمی کو لگ جاتی ہے میرے نبی صل اللہ علیہ وسلم نے اس عقیدے کو باطل قرار دیا اور “لاعدوی”فرمایا یعنی بذات خود ایک شخص کی بیماری بڑھ کر کسی دوسرے کو نہیں لگتی بلکہ بیمار کرنا نہ کرنا قادر مطلق کے اختیار میں ہے -البتہ وہ بیمار جس کے بارے میں ماہر مسلمان طبیب نے بتا دیا ہو٫اس سے احتیاطا دور رہنے اور پرہیز کرنے میں کوئ حرج نہیں-کیونکہ دیگر اسباب کی طرح یہ بھی ایک سبب ہو سکتا ہے-

“خلاصہ”

حقیقت یہ ہے کہ توہم پرستی وہ آ گ ہے جسمیں ہم اپنے دینی تشخص کو جلا رہے ہیں -دین دشمن اور گمراہ لوگ اس آ گ میں آ ہستہ آ ہستہ تیل ڈالتے رہتے ہیں-جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ماہ صفر سے وابستہ بیشمار واقعات مثلاً”ہجرت مدینہ””میرے نبی صل اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر “خاتون جنت سیدہ فاطمتہ الزہرا رضی اللّٰہ عنہا کا نکاح حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ سے”امہات المؤمنین حضرت زینب بنت خزیمہ”اور حضرت صفیہ بنت حی”کاشانہ نبوت میں تشریف لائیں-

یہ سب واقعات ہمیں توہم پرستی نحوست اور بد شگونی کے تاریک اندھیروں سے نکال کر خیرو برکت٫خوشی و مسرت کے سدا بہار ماحول اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم پر یقین بڑھاتے ہیں-

مرسلہ،: خولہ بنت سلیمان

حوالہ: تاریخ کے ساتھ ساتھ-

اپنا تبصرہ بھیجیں