سجدہ سہو کا طریقہ

سوال : اگر نماز میں کچھ کمی کی تو سلام سے پہلے سجدہ سہو کیا جاۓ، اگر نماز میں زیادتی کی تو سلام سے کے بعد سجدہ کیا جاۓ، شک کی صورت میں ایک صورت تو یہ ہے کہ یقین پہ بناء کرتے ہوئے سلام سے پہلے سجدہ کیا جائے اور دوسری صورت سلام کے بعد سجدہ کیا جائے۔
کیا سجدہ سہو کا یہی طریقہ ہے؟ یا کسی اور مذہب شافعی، حنبلی کے مطابق ہے ، ہم تو سجدہ سہو ایک ہی طرح کا سمجھتے ہیں- رہنمائی فرما دیجیے۔

الجواب باسم ملھم الصواب،

سوال ذکر کردہ صورت کا تعلق فقہ مالکیہ سے ہے، جب کہ اہل پاکستان امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی فقہ پر عمل کرتے،جسے فقہ حنفی کہا جاتا ہے۔فقہ حنفی میں سجدہ سہو کا صرف ایک ہی طریقہ ہے وہ یہ کہ آخری قعدہ میں عبدہ ورسولہ تک پڑھ کر دائیں طرف سلام پھیر کر دو سجدے کیے جائیں اور پھر دوبارہ سے التحیات سے دعا تک پڑھ کر دونوں سلام پھیر لیا جائے۔

حوالہ جات :

1: وكيفيته ان يكبر بعد سلامه الأول ويخر ساجدا ويسبح في سجوده ثم يفعل ثانيا كذلك ثم يتشهد ثانيا ثم يسلم وكذا في المحيط وياتي بالصلاة على النبي ﷺ والدعاء في قعدة السهو هو الصحيح وقيل، ياتي بهما في القعدة الأولى كذا في التبيين۰

(فتاوى هنديه كتاب الصلاة الباب الثاني عشر في سجود السهو: 1/139)

2 : واختلفوا في موضعه فقال أبو حنيفة: بعد السلام، وقال مالك: إن كان من نقصان فقبل السلام، وإن كان عن زيادة فبعده، فإن اجتمع سهوان من زيادة ونقصان فموضعه عنده قبل السلام. وقال الشافعي في المشهور عنه: كله قبل السلام، وقال أحمد في المشهور عنه: هو قبل السلام إلا أن يسلم من النقصان في صلاته ساهيا، أو شك في عدد الركعات وبني على غالب فهمه فإنه يسجد للسهو بعد السلام.

(رحمة الأمة في اختلاف الأئمة باب سجود السهو : 45)

3 : سجدہ سہو کا طریقہ یہ ہے کہ آخری قعدہ میں عبدہ ورسولہ تک پڑھ کر ایک طرف سلام پھیر دے پھر دو سجدے کر کے دوبارہ التحیات پڑھیں اور درود شریف اور دعا کے بعد سلام پھیریں-

(آپ کے مسائل اور انکے حل : 4/51)

واللہ اعلم بالصواب
2 ربیع الاول 1444
29ستمبر 20222

اپنا تبصرہ بھیجیں