سعودیہ میں ملنے والا چکن کھانے کا حکم

معلوم یہ کرنا تھا کہ اگر حج یا عمرہ پر جائیں تو کیا وہاں کا ذبیحہ کھا سکتے ہیں۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ تقوی ہےکہ احتیاط کی جائے کہ وہاں ذبیحہ برازیل سے آرہا ہے؟
الجواب باسم ملہم الصواب
واضح رہے کہ اگر کوئی ذبیحہ مسلمانوں کی طرف سے حلال سرٹیفیکیٹ کے ساتھ فروخت ہو رہا ہو تو اس میں شک وشبہ میں نہیں پڑھنا چاہیے کہ وہ حلال ہے یا حرام،بلکہ کھالینا چاہیے، البتہ اگر معتمد ذرائع سے معلوم ہوجائے کہ یہ ذبیحہ غیر شرعی طور پر ذبح کیا گیا ہے تو پھر کھانا جائز نہیں۔
لہذا اگر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں ہوٹل والے  اگر زندہ مرغی خود شرعی طریقے سے ذبح کرکے فروخت کریں یا انہیں اپنے کھانوں میں شامل کریں تو ان کا استعمال بلاشک وشبہ جائز ہے۔
البتہ اگرگوشت باہر ممالک سے آتا ہے اور مکمل اطمینان ہوکہ یہ صحیح شرعی طور پو ذبح ہوا ہے تب اسے کھانے میں کوئی حرج نہیں،تاہم اگر دلی اطمینان نہ ہوتو پھر کھانے سے بچنا بہتر ہے،لیکن جب تک اس گوشت کو باسم اللہ پڑھے بغیرذبح کرنے کا یقین نہ ہوجائےاس وقت تک اس پر حرام کا حکم لگانا درست نہیں۔
—————————————
حوالہ جات :
1. وَطَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْکِتَابَ حِلٌّ لَکُمْ (المائدہ: 5)
ترجمہ:اور اہل کتاب کا کھانا تمہیں حلال ہے .
—————————————
1. قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” الْحَلَالُ بَيِّنٌ، وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ، وَبَيْنَهُمَا أُمُورٌ مُشْتَبِهَةٌ، فَمَنْ تَرَكَ مَا شُبِّهَ عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ كَانَ لِمَا اسْتَبَانَ أَتْرَكَ، وَمَنِ اجْتَرَأَ عَلَى مَا يَشُكُّ فِيهِ مِنَ الْإِثْمِ أَوْشَكَ أَنْ يُوَاقِعَ مَا اسْتَبَانَ، وَالْمَعَاصِي حِمَى اللَّهِ، مَنْ يَرْتَعْ حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكْ أَنْ يُوَاقِعَهُ “۔
( صحیح البخاری :رقم الحدیث 2051)
ترجمہ:
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’حلال ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہر ہے ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں۔ جس شخص نے اس چیز کو ترک کردیا جس میں گناہ کا شبہ ہوتو وہ اس چیز کو بدرجہ اولی چھوڑ دے گا جس کا گناہ ہونا ظاہر ہو اور جس نے شبہ کی چیز پر جرات کی تو وہ جلد ہی ایسی بات میں مبتلا ہوسکتا ہے جس کاگناہ ہونا ظاہر ہے۔ گناہ (گویا) اللہ کی چراگاہ ہیں، جوانسان اپنے جانور چراگاہ کے اردگرد چرائے گا جلد ہی اس کا چراگاہ میں پہنچنا ممکن ہوگا۔‘‘

2.عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنَّ قَوْمًا قَالُوا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ قَوْمًا يَأْتُونَا بِاللَّحْمِ، لاَ نَدْرِي: أَذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ أَمْ لاَ؟ فَقَالَ: «سَمُّوا عَلَيْهِ أَنْتُمْ وَكُلُوهُ» قَالَتْ: وَكَانُوا حَدِيثِي عَهْدٍ بِالكُفْر۔
(صحیح بخاری: رقم الحدیث:5507)
ترجمہ:سیدنا عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ لوگوں نےنبی ﷺ سے عرض کی: لوگ ہمارے پاس گوشت لاتے ہیں ہم نہیں جانتے کہ اس پر اللہ کا نام ذکر کیا گیا ہے یا نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم بسم اللہ پڑھ کر اسے کھا لیا کرو۔“ سیدنا عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: یہ لوگ ابھی اسلام میں نئے نئے داخل ہوئے تھے.
1.” رجل اشترى من التاجر شيئاً هل يلزمه السؤال أنه حلال أم حرام؟ قالوا: ينظر إن كان في بلد وزمان كان الغالب فيه هو الحلال في أسواقهم ليس على المشتري أن يسأل أنه حلال أم حرام، ويبنى الحكم على الظاهر، وإن كان الغالب هو الحرام أو كان البائع رجلاً يبيع الحلال والحرام يحتاط ويسأل أنه حلال أم حرام”۔
(الفتاوی ھندیہ: جلد 3، صفحہ 210)
2. والأولی أن لا یأکل ذبیحتہم ولا یتزوج منہم إلا للضرورة.
(الفتاوی شاميہ:جلد 9،صفحہ 430 )
3.وفی جامع الجوامع من اشتری لحما وعلم انہ ذبیحۃ مجوسی واراد الرد فقال البائع: الذابح مسلم لا یردو یحل اکلہ مع الکراھیۃ
(البحر الرائق: جلد 8 صفحہ 193)
———————————-
1.ہر حیوان حلال کے کھانے کے بارے میں دو شرطیں ہیں اول تو شرعی ذبح ہونا، اگر دوسرے ذبح کرتے وقت اسم الی کا ذکر ہونا، اگر دونوں یا ایک فوت ہوگئی تو حیوان کسی طرح حلال نہیں ہو سکتا۔
(جامع الفتاوی: جلد 3، صفحہ 282)
2.جن مرغیوں کے بارے میں صراحت سے معلوم ہوکہ واقعۃ یہ شرعی شرائط کے مطابق ذبح کی گئی ہیں ان کا کھانا جائز ہے۔ اور جن کے بارے میں صراحت کے ساتھ معلوم ہو کہ ان کےذبح کے وقت شرعی شرائط کی پابندی نہیں کی گئی توان کا کھانا جائز نہیں۔
(حج کے ضروری مسائل: صفحہ 73)
————————————
واللہ اعلم بالصواب
13 اگست2022
15 محرم 1444

اپنا تبصرہ بھیجیں