اسکول کالجوں میں غیرحاضری پرمالی جرمانہ کا حکم

  دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:153

١۔ سکول کالجوں میں غیر حاضریوں پر مالی جرمانہ (روپوں کی شکل میں )لیا جاتا ہے، کیا یہ جائز ہے ۔

٢۔ اگر اس جرمانے سے انعامات خرید کر ان میں سے جو امتحانات میں کامیاب ہوتے ہوں تو ان کو دیا جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟

٣۔ اسی طرح ٹریفک کے قونین اور دوسرے قوانین میں جرمانہ لگایا جاتا ہے اس کا کیا حکم ہے؟اگر امام اعظم کے مطابق جب جائز نہیں تو پھر تادیب کیسے کیا جائے قوانین کی خلاف ورزیوں والوں کو ؟ بعض لوگ یہ اشکال کرتے ہیں پھر

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب حامدا و مصليا

 (1)  واضح رہے کہ فقہی اعتبار سے کسی پر مالی جرمانہ عائد کرنا جائز نہیں ہے۔ لہذ اطلباء کی غیر حاضری یا کسی اور وجہ سے بطور سزاان پر مالی جرمانہ عائد کرنا جائز نہیں، اس سے اجتناب کرنالازم ہے۔

لما في الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) ( ٤/٦١)

مطلب في التعزير بأخذ المال (قوله لا بأخذ ما ل في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجور التعزير للسلطان بأخذ المال۔ الخ

 (۲) صورت مسئولہ میں یہ رقم طلباء کی ملکیت ہے، اور اس رقم کا انہیں واپس  کرنا ضروری ہے۔ لہذایہ رقم کسی اور کو دینا کسی بھی طرح جائز نہیں، اس سے اجتناب کرنا لازم ہے۔ البتہ اسکول والے امتحان میں کامیاب ہونے والے طلباء کو اپنے ادارہ کے فنڈ سے انعام دینا چاہے تو مضائقہ نہیں، بلکہ اچھی بات ہے۔

(۳) ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی صورت میں اگر ٹریفک پولیس چالان کر دے تو اس چالان کو ادا کرنا قانوناضروری ہے۔ اور جہاں تک آپ کے اشکال کا تعلق ہے تو واضح رہے کہ فقہاء احناف نے مالی تعزير کو ناجائز فرمایاہے، البتہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ سے ایک روایت اور بعض فقہاء رحمہم اللہ کے مذہب کے مطابق مالی جرمانہ وصول کرنے کی گنجائش ہے اور امام ابویوسف کی روایت کی تشریح بعض فقہاء کرام نے یہ فرمائی ہے کہ سلطان اور حاکم مجرم سے جرمانہ وقتی طور پر ازراہ دهمکی اپنے پاس روک لے، تا کہ مجرم اپنے جرم سے باز آجائے، پھر جب وہ تائب ہو جائے تو وہ وصول کیا ہوا جرمانہ اس کو واپس کر دیا جائے، البتہ اگر توبہ سے نا امید ہو جائے تو اس کو جہاں چاہے خرچ کر سکتا ہے، جبکہ بعض فقہاءکرام رحمہم اللہ نے اس قول کو مطلق ذکر کیا ہے کہ حاکم اور سلطان مالی جرمانہ وصول کر کے بیت المال میں ڈال سکتا ہے، بہر حال” تعزير بالمال “امر مجتہد فیہ ہے اور اس قسم کے مسائل میں اگر قاضی شرع خلاف مذ ہب فیصلہ کر دے تو وہ قضاء نافذ ہو جاتا ہے، لہذ اواقعی انتظامی مصلحت کے پیش نظر اگر حکومت تعزیر بالمال کا فیصلہ کر دے تو یہ فیصلہ قضاء نافذ ہو جائے گا کیونکہ ریاست کو ولایت عامہ حاصل ہوتی ہے لیکن دیگر افراد یا نجی اداروں کو اس پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔(ماخذہ التبويب :۳/ ۱۸۳۱)

و لما في البحر الرائق، دارالکتاب الاسلامي – (۵/ ۴۴)

وقد قيل روي عن أبي يوسف أن التعزير من السلطان بأخذ المال جائز كذا في الظهيرية وفي الخلاصة سمعت عن ثقة أن التعزير بأخذ المال إن رأي القاضي ذلك أو الوالي جاز ومن جملة ذلك رجل لا يحضر الجماعة يجوز تعزیره بأخذ المال اه۔ وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى وفي شرح الآثار التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ۔

 وفي معين الحكام – لعلاء الدين الطرابلسي الحنفي (ص: ۱۹۵)

يجوز التعزير بأخذ المال وهو مذهب أبي يوسف وبه قال مالك، ومن قال: إن العقوبة المالية منسوخۃ فقد غلط على مذاهب ۔۔الخ

۔ وفي لسان الحكام – ( ١/٤٠١ )

 قال المصنف رحمه الله سمعت من ثقة أن التعزير بأخذ المال إن رأى القاضي أو الولي جاز ومن جملة ذلك رجل لا يحضر الجماعة يجوز تعزیره بأخذ المال————-   

 والله سبحانه وتعالى أعلم

عادل ایوب عفی عنہ

دار الافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی

٢٩ / جمادی الاخری /١٤٣٩ ھ

18/ مارچ 2018ء

پی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنے کےلیےلنک پرکلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/613398679029381/

اپنا تبصرہ بھیجیں