شیو کےلیے دکان کرائے پر دینا

سوال:کیا شیو کےلیے دکان کرائے پر دینا جائز ہے؟
تنقیح: شیو کےلیے دینے سے کیا مراد ہے، کیا حجام کو دینے کے بارے میں سوال کیا گیا ہے؟

جواب تنقیح: جی
الجواب باسم ملھم الصواب

صورت مسئولہ میں اگر دکان کرائے پر دیتے وقت یہ بات صراحتاً کر دی گئی تھی کہ اس میں شیو (داڑھی مونڈھنے)کا کام کیا جائے گا تو اس صورت میں یہ اجارہ مکروہ تحریمی ہوگا،کیونکہ اس میں صراحت کردی گئی ہے، لیکن بہر حال اجارہ منعقد ہو جائے گا اور اجرت لازم ہوگی اور اگر اس بات کی صراحت نہیں کی گئی تھی تو اس اجارہ میں نہ تو کراہت ہے اور اجرت بھی حلال ہوگی، البتہ نہی عن المنکر کے طور پر بتادینا چاہیے کہ داڑھی مونڈھنا حرام ہے اور اس کی کمائی بھی حرام ہوگی۔
_________

حوالہ جات
1۔ ”وتعاونوا علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان۔“
(سورہ المائدة:آیت،2)

ترجمہ:”اورتم نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کیا کرو ، اور گناہ اور ظلم کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون نہ کیا کرو۔“

2۔وقوله تعالى وتعاونوا على البر والتقوى يقتضي ظاهره إيجاب التعاون على كل ما كان تعالى لأن البر هو طاعات الله وقوله تعالى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان نهي عن معاونة غيرنا على معاصي الله تعالى.

(احکام القرآن للجصاص:296/3)
3۔إذا استأجر الذمي بيتاً من مسلم ليبيع فيه الخمر، جازت الإجارة في قول أبي حنيفة خلافاً لهما.

(المحيط البرهاني في الفقه النعماني:7/ 482)

4۔قال: وإذا استأجر الذمي من المسلم بيعة يصلَي فيها فإن ذلك لا يجوز؛ لأنه استأجرها ليصلي فيها وصلاة الذميّ معصية عندنا وطاعة في زعمه، وأي ذلك ما اعتبرنا كانت الإجارة باطلة؛ لأن الإجارة على ما هو طاعة ومعصية لا يجوز.
ولا يجوز قبول هدية أمراء الجور ؛ لأن الغالب في مالهم الحرمة إلا إذا علم أن أكثر ماله حلال بأن كان صاحب تجارة أو زرع فلا بأس به ؛ لأن أموال الناس لا تخلو عن قليل حرام فالمعتبر الغالب ، وكذا أكل طعامهم ، كذا في الاختيار شرح المختار .

(المحيط البرهاني في الفقه النعماني:7/ 482)

5۔وجاز اجارة بیت الخ لیتخذ بیت نار او کنیسة او بیعة او یباع فیه الخمر وقالا:لاینبغی ذلک لانه اعانة علی المعصیة وبه قالت الثلاثة الخ
(الدر مع الرد:کتاب الحظر والاباحة، فصل فی البیع، 478/9- 479)

فقط واللہ اعلم

29/رجب المرجب 1444ھ
21فروری 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں