شوہر کا تین طلاق دے کر بیوی سے رجوع کرنا

سوال ۔ میں وقاص مشتاق ولد مشتاق احمد خان نے أپنی بیوی۔۔۔ ھاجرہ خان دختر احسان اللہ خان۔۔۔۔۔۔ کو پہلی طلاق تقریبا دوسال پہلے دی اس وقت میں آسٹریلیا میں تھا اور وہ پاکستان میں تھی فون پر ہمارا جھگڑا ہوا اور فون پر طلاق دی کچھ دنوں بعد ہم نے فون پر ہی صلح کرلیا ۔

پھر ہماری دوسری طلاق آسٹریلیا میں 19جنوری کو ہوٸی ۔ایام حیض سےمیری بیوی 15جنوری کو پاک ہوچکی تھی لیکن ہم نے پاک ہونے کے بعد کوٸی تعلق قاٸم نہیں کیا تھا پھر کچھ دنوں کے بعد تقریبا 23جنوری کو ہم نے رجوع کے بعد تعلق قاٸم کیا ۔

پھر جھگڑے ہوٸے اور 30جنوری کو تیسری طلاق دے دی ۔پھر میری بیوی کے والد نے کسی عربی عالم سے پتا کروایا اور انھوں نے ہمیں بتایا کہ رجوع ہوسکتا ہے پھر ہم نے رجوع کرلیا فروری کو ۔

پھر ماہواری ہوٸی فروری کے مہینے کی اور وہ ٹھیک ہوٸی تقریبا 15فروری کو ۔

جب انہوں نے غسل کیا اس کے بعد ہم نے تعلق بھی قاٸم کیا۔پھر طلاق دی 24فروری کو۔یہ چوتھی بار تھی ۔اس کے بعد سے ہم الگ ہی رہ رہے ہیں ۔

براہ مہربانی شرعی طور پر کیا ہم رجوع یا دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں ۔ہم حلال میں رہنا چاہتے ہیں اگر شرعی اجازت نہیں ہے تو مہربانی کرکے ہمیں بتاٸیں تاکہ ہم دونوں اپنی زندگی کہیں اور شروع کرسکیں ۔

تنقیح ۔ طلاق کے الفاظ بعینہ بتاٸیے ۔

جواب تنقیح ۔

پہلی بار ۔۔۔۔ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ۔۔ ۔۔ایک بار ۔۔۔۔۔کہا ۔

دوسری بار میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ۔۔۔۔۔ تین بار ۔۔۔۔۔۔کہا ۔

تیسری بار میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ۔۔۔۔۔ایک بار ۔۔۔۔۔۔کہا ۔

الجواب باسم ملھم الصواب

قرآن وسنت اور اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے کہ تین طلاق کے بعد بیوی شوہر پر حرام ہوجاتی ہے اور شوہر کو رجوع کا حق نہیں رہتا ۔ یہی مسلک حضرات ائمہ اربعہ (حضرت امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ) اور فقہاء ومحدثین کا ہے ۔

اب نکات کی صورت میں جواب ملاحظہ ہو :

١ ۔ مذکورہ سوال میں جب شوہر نے پہلی طلاق دو سال پہلے دی تو بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگٸی اور اس کے بعد رجوع کیا وہ درست ہوا اور شوہر کے لیے دو طلاقوں کا اختیار باقی رہا ۔

٢ ۔ پھر دوسری طلاق 19جنوری کو دی تو سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق ۔۔۔۔ شوہر نے ” میں تمہیں طلاق دیتا ہوں” تین مرتبہ کہا۔۔ جس سے بیوی پر مزید دو طلاق واقع ہوگٸی اور بیوی شوہر کے نکاح سے نکل کر حرام ہوگٸی ، دوسری مرتبہ کی طلاق میں سے ایک لغو اور بے کار ہوگٸی ، تین طلاق کے بعد شوہر کو رجوع کا حق حاصل نہیں رہتا ،لہذا سوال میں دوسری طلاق کے بعد ..(جس میں تین طلاق دی گٸی ) شوہر کا رجوع کرنا اور تعلقات قاٸم کرنا شرعا حرام اور ناجاٸز تھا، اس پر توبہ استغفار کرنا لازم ہے ۔

٣ ۔ تیسری طلاق جو 30جنوری کو دی وہ زاٸد اور لغو طلاق ہے؛کیونکہ تیسری طلاق کے بعد مزید طلاق واقع نہیں ہوتی اور تین طلاقیں پہلے ہی واقع ہوچکی تھیں ۔

٤ ۔ تین طلاق کے بعد اب رجوع کی صرف یہی صورت ہے کہ بیوی طلاق کی عدت تین حیض اگر وہ حاملہ نہ ہو ورنہ وضع ِ حمل گزار کر کسی دوسرے مرد سے نکاح کرلے اور تعلق قاٸم ہونے کے بعد شوہر بیوی کو طلاق دے یا اس کا انتقال ہوجاٸے تو پھر اس کی عدت گزار کر سابق شوہر سے نکاح کرسکتی ہے اس کے سوا دوسری کوٸی صورت نہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات ۔

١ ۔ قال اللّٰہ تعالیٰ : {اَلطَّلاَقُ مَرَّتٰنِ … فَإِنْ طَلَّقَہَا فَلاَ تَحِلُّ لَہٗ مِنْ بَعْد حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ} [ البقرۃ ، جزء آیت : ۲۲۹-۲۳۰ ]

٢ ۔ وأجمع العلماء علی أن قولہ تعالیٰ: أو تسریح بإحسان ہي الطلقۃ الثالثۃ بعد الطلقتین؛ وإیاہا عني بقولہ: {فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ} وأجمعوا علی أن من طلّق امرأتہ طلقۃ أو طلقتین فلہ مراجعتہا؛ فإن طلقہا الثالثۃ لم تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ۔ (الجامع لأحکام القرآن الکریم للقرطبي ۳؍۱۲۷-۱۲۸)

٢ ۔و قال لزوجتہ: أنت طالق، طالق، طالق، طلقت ثلٰثاً۔ (الاشباہ والنظائر قدیم۲۱۹، جدید زکریا۳۷۶)

٣ ۔ عن سہل بن سعد في ہٰذا الخبر قال : فطلقہا ثلاث تطلیقاتٍ عند رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فأنفذہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔ ( سنن أبي داؤد ، کتاب الطلاق / باب اللعان ۱ ؍ ۳۰۶ )

٤ ۔ وذہب جمہورالعلماء من التابعین و من بعدہم منہم: الأوزاعي، والنخعي، والثوري وأبو حنیفۃ، والشافعي وأصحابہ، وأحمد وأصحابہ وإسحاق وأبو ثور وأبو عبیدۃ وآخرون کثیرون علی أن من طلق امرأتہ ثلاثا وقعن ولکنہ یأثم۔ (عمدۃ القاري، الطلاق / باب من أجاز طلاق الثلاث ۲۰؍۲۳۳ بیروت)

٥ ۔ من قال : لا یقع الطلاق إذا أوقعہا مجموعۃ للنہي عنہ ، ہو قول الشیعۃ وبعض أہل الظاہر ۔ ( بذل المجہود ، کتاب الطلاق / باب في فسخ المراجعۃ الخ ۸ ؍ ۱۵۵ رقم : ۲۱۸۷ )

وأما جواب حدیث رکانۃ : أنہ مذہب شاذ فلا یعمل بہ ۔ ( فتح الباري ۹ ؍ ۳۶۳ رقم : ۵۲۶۱ دار الکتب العلمیۃ بیروت )

٦ ۔ وإن کان الطلاق ثلاثًا في الحرۃ … لم تحل لہ حتی تنکح زوجًا غیرہ نکاحًا صحیحًا ، ویدخل بہا ثم یطلقہا أو یموت عنہا ۔ ( الفتاویٰ الہندیۃ ۱ ؍ ۴۷۳ )

فقط واللہ اعلم بالصواب ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں