سونے کی زکوۃ معلوم کرنا

سوال: محترم جناب مفتیان کرام!
السلام علیکم و رحمۃ الله و بركاته!

میرے پاس 4 لاکھ 25
ہزار کا سونا ہے اور يه زیور میرے پاس تین سال سے ہے اور میں نے ہر سال قربانی کی ہے اس سے پہلے میرے پاس سونے کے زیور تھے مگر اب یہی رہ گیا ہے آپ مجھے زکوۃ پیسوں میں بتا دیں تو میر ے لیے آسانی ہو گی۔
تنقیح:سونے کا وزن کیا ہے اور کیا 3 سال کی زکوۃ معلوم کرنی ہے؟ اور 3سال تک یہی وزن کا سونا تھا؟سونے کے علاوہ کچھ اور نقدی بھی ہے۔
جواب تنقیح: سونے کا وزن: 28 گرام
جی تین سال سے اتنا ہی سونا ہے۔ تین سال کی زکاة معلوم کرنی ہے۔سونے کے علاوہ نقدی بھی ہوتی ہے۔
الجواب باسم ملہم الصواب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

صورت مسئولہ میں مذکورہ سونے پر دیگر نقدی کے ساتھ زکوۃ واجب ہے۔اب چونکہ یہ سونا آپ کے پاس تین سالوں سے ہے،لہذا آپ پر تین سالوں کی زکوۃ ادھار ہے،جس کے نکالنے کا طریقہ یہ ہے کہ مذکورہ سونے کی ایک سال کی زکوۃ نکال کر رقم الگ رکھ لیں اور پھر اگلے سال کا حساب بقیہ رقم سے لگائیں، اس طرح ہر سال کی زکوۃ کی رقم نکال کر باقی رقم پر زکوۃ کا حساب کرلیں۔
4لاکھ 25ہزار پر 10,625روپے زکوۃ بنتی ہے۔ اب آپ کے پاس 4،14،375 رقم باقی ہے اس پر 10359.375 زکوۃ ہو گی ۔
.اور اس سے پچھلے سال 404015.625 پر 10100.390روپے زکوۃ ہو گی ۔اس طرح پچھلے سالوں کی زکوۃ نکلے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات

1۔هي تمليك مال مخصوص لشخص مخصوص فرضت على حر مسلم مكلف مالك لنصاب من نقد ولو تبرا أو حلييا أو آنية أو ما يساوي قيمته من عروض تجارة فارغ عن الدين وعن حاجته الأصلية ولو تقديرا.
(نور الايضاح، کتاب الزکوۃ،ص 271)

2۔تجب في كل مائتي درهم خمسة دراهم، وفي كل عشرين مثقال ذهب نصف مثقال مضروبا كان أو لم يكن مصوغا أو غير مصوغ حليا كان للرجال أو للنساء تبرا كان أو سبيكة كذا في الخلاصة.
الھندیة: (178/1، ط: دار الفكر)

3۔نصاب الذهب عشرون مثقالا و الفضة مائتا درهم (تنوير الأبصار، ج 2، ص 295، ايج ايم سعيد)[2]

4۔“وإنما له ولاية النقل إلى القيمة يوم الأداء فيعتبر قيمتها يوم الأداء، والصحيح أن هذا مذهب جميع أصحابنا”.
(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 22):

5وأما وجوب الزكاة فمتعلق بالنصاب إذ الواجب جزء من النصاب، واستحقاق جزء من النصاب يوجب النصاب إذ المستحق كالمصروف … وبيان ذلك أنه إذا كان لرجل مائتا درهم أو عشرين مثقال ذهب فلم يؤد زكاته سنتين يزكي السنة الأولى، وليس عليه للسنة الثانية شيء عند أصحابنا الثلاثة، وعند زفر يؤدي زكاة سنتين، وكذا هذا في مال التجارة، وكذا في السوائم الخ”. (بدائع الصنائع میں ہے: 2/7، کتاب الزکاۃ، ط: سعید)

3۔ اگرکسی شخص نے گزشتہ سالوں کی زکاۃ ادا نہیں کی تو جس دن زکاۃ ادا کی جائےاس دن کی جو قیمت ہے اس قیمت کا اعتبار ہو گا، یعنی گزشتہ سالوں کی زکات موجودہ ریٹ کے حساب سے ادا کی جائے گی۔
(فتاوی جامعۃ العلوم الاسلامیۃ)

واللہ اعلم بالصواب
12 ذی القعدہ 1444ھ
1جون 2023

اپنا تبصرہ بھیجیں