سورۃ ال عمران میں ذکر کردہ احکام

اس پارے میں جوآیات سورہ آل عمران کی ہیں،ان سے جواحکام اخذ ہوتے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے:
1۔ اونٹ، اونٹ کا دودھ اور تمام پاکیزہ جانور حلال ہیں۔ (كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِبَنِي إِسْرَائِيلَ إِلَّا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِيلُ عَلَى نَفْسِهِ ) ( آل عمران: 93)
2۔بیت اﷲ شریف کئی وجوہ سے بیت المقدس سے افضل ہے اس لیے بہترین امت کا قبلہ بھی بہترین رکھا گیا ہے۔ ( إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ (96) فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَقَامُ إِبْرَاهِيمَ وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا) ( آل عمران: 96، 97)
3۔ جس مسلمان مرد یا عورت کے پاس اپنی ضرورتوں کے علاوہ حج کوٹے کے برابر مال ہو اس پر حج کرنا فرض ہے اور حج کی فرضیت کا منکر کافر ہے۔ {وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ } [آل عمران: 97]
4۔قرآن و سنت اور صراط مستقیم کے علاوہ دوسرے راستے اختیار کرنا اور دین میں نظریاتی تفرقہ بازی پیدا کرنا ممنوع اور شدید گمراہی ہے یہ زمانہ جاہلیت کی یادگار ہے۔ گروہ بندی ایک دیمک ہے جو قوموں کو اندر سے کھوکھلا کردیتی ہے۔ ( وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا) ( آل عمران: 103]
5۔ہر شخص اپنے ماتحتوں کو نیکی کا حکم اور برائی سے منع کرنے کا پابند ہے۔ امت محمدیہ میں ہر زمانے اور ہر محلے میں ایک جماعت ایسی ہونا ضروری ہے جو امر بالمعرف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتی رہے۔ تبلیغ کا طریقہ کار بھی بتایا گیا کہ تبلیغ کے لیے نرمی کو اپنا ہتھیار بنا لو ورنہ لوگ آپ سے دور بھاگیں گے۔ { وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ} [آل عمران: 104] {كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ } [آل عمران: 110]
6۔ ربا القرض حرام ہے۔ مثلاً: ہزار روپے قرض دے کر واپس ہزار روپے سے زیادہ لینا جبکہ یہ زیادتی مشروط ہو حرام ہے۔ {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً} [آل عمران: 130]
7۔ امیر، اپنے ذمہ دار اور حکومت اطاعت جائز کاموں میں واجب ہے۔ اطاعت امیر سے نکل جانا بڑی تباہی اور ہلاکت کا باعث ہے۔{حَتَّى إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ وَعَصَيْتُمْ مِنْ بَعْدِ مَا أَرَاكُمْ مَا تُحِبُّونَ } [آل عمران: 152]
8۔شہادت کی تمنا جائز ہے، لیکن لڑائی میں بزدلی دکھانا جائز نہیں۔ {وَلَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ فَقَدْ رَأَيْتُمُوهُ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ}
9۔ تمام اہم سرکاری و غیر سرکاری امور میں مشاورت سے کام لینا چاہیے! لیکن امیراگرامانت و دیانت اور تقویٰ کے اعلیٰ پیمانے پر ہو تو اکثریتی رائے پر عمل کرنے کا پابند نہیں۔ {وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ} [آل عمران: 159]
10۔ مال غنیمت ، وقف اور سرکاری اموال میں معمولی سے معمولی خیانت بھی جائز نہیں۔ {وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ} [آل عمران: 161]
11۔شہید زندہ ہوتا ہے۔ شہید کو مردہ نہیں کہنا چاہیے!
12۔ اﷲ جل شانہ کا علم ذاتی، کلی اور ہر ہر چیز کو محیط ہے جبکہ انبیائے کرام کو جو غیبی علوم دیے جاتے ہیں وہ وحی کے ذریعے ہوتے ہیں اور ہر ہر چیز کو محیط نہیں ہوتے، محدود ہوتے ہیں۔ غیر محدود نہیں ہوتے۔{وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِنْ رُسُلِهِ مَنْ يَشَاءُ} [آل عمران: 179]
13۔ اسلامی ممالک کی سرحدوں کی حفاظت ضروری امر ہے۔{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا } [آل عمران: 200]
14۔منافق اگرچہ دل سے کافر ہوتا ہے لیکن کیونکہ وہ زبان سے اسلام ظاہر کرتا ہے اس لیے اس پر مسلمانوں والے احکام ہی جاری ہوں گے۔ انہیں قتل نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ ان کے اشکالات دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
15۔یہودیوں اور کسی بھی کافر کوکلیدی عہدے دیناجائز نہیں۔{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِنْ دُونِكُمْ} [آل عمران: 118]
( گلدستہ قرآن )

اپنا تبصرہ بھیجیں