تدفین کے بعد میت کے لیے اجتماعی دعا کا حکم

﴿ رجسٹر نمبر: ۱، فتویٰ نمبر: ۶۱﴾

سوال:-      میت کی تدفین کے بعد اجتماعی دعا کرانے کا کوئی ثبوت ہے؟حدیث یا اثر صحابی ہو؟

جواب :-       اجتماعی دعا کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں:ایک یہ کہ لوگ جمع ہو کر،ہاتھ اٹھا کردعا کریں لیکن  ہر ایک  فرداً فرداًخود دعا کرے۔اور دوسری صورت یہ کہ ایک دعا کرائے اور باقی سب آمین کہیں۔

اجتماعی دعا کی پہلی صورت تو جائز ہے اور بعض احادیث سے ثابت ہے۔ تاہم دوسری صورت کے بارے میں ہمارے اکابر کی دو آراء ہیں:ایک یہ کہ اس طرح اجتماعی دعا احادیث کے الفاظ، سیاق و سباق سے ثابت ہے۔

(مستفاد: فتاوی رحیمیہ:٧/٩٦،کتاب الجنائز،فتاوی دار العلوم زکریا :٢/٦٤٨،کتاب الصلوۃ، کفایۃ المفتی:٤/٧٢،کتاب الجنائز)

جبکہ دوسری رائے یہ ہے کہ اس طریقے سے دعا صراحتاً ثابت نہیں. ہاں اگر بلا قصد اجتماعی صورت بن جائے تو مضائقہ نہیں۔

(دار العلوم دیوبند:احکام میت، س ط:١٤-١-٢٠١٨،فتاوی قاسمیہ :ج ١0،کتاب بقیۃ رسومات الجنائز)

لہذا بہتر یہ ہے کہ پہلی صورت (جس پر سب کا اتفاق ہے) کے مطابق، تدفین کے بعد قبر کے مخالف جانب ہو کر ہر کوئی فرداً فرداً دعا کرے اور تلاوت کر کے میت کو ایصال ثواب کرے۔لیکن اگر کوئی دوسری صورت کے مطابق إجتماعی دعا کرائے تو بھی درست ہے۔ تاہم یاد رہے کہ تدفین کے بعد دعا اور تلاوت کرنا ایک مستحب عمل ہے، اس کو ضروری خیال کرنا درست نہیں ،بلکہ بدعت ہے۔ اسی طرح قبر کے سرہانے سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیات اور پائے کی جانب سورۃ البقرہ کی آخری آیات پڑھنا بھی مستحب اور ماثور و منقول ہے۔

سنن أبي داود – (3 / 215)

عن عثمان بن عفان، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم، إذا فرغ من دفن الميت وقف عليه، فقال: «استغفروا لأخيكم، وسلوا له بالتثبيت، فإنه الآن يسأل»، قال أبو داود: «بحير ابن ريسان»

 “وعن عبد اللہ بن عمر قال: سمعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقول: إذا مات أحدکم فلا تحبسوہ وأسرعوا بہ إلی قبرہ ولیقرأ عند رأسہ فاتحة البقرة وعند رجلیہ بخاتمة البقرة، رواہ البیھقی فی شعب الإیمان وقال: والصحیح أنہ موقوف “

(المصدر السابق، کتاب الجنائز، باب دفن المیت، الفصل الثالث، ص ۱۴۹، وانظر مرقاة المفاتیح أیضاً)، “وعن عمرو بن العاص قال لابنہ وھو فی سیاق الموت: إذا أنا مت فلا تصحبنی نائحة ولا نار فإذا دفنتمونی فشنوا علی التراب شناً ثم أقیموا حول قبری قدر ما ینحر جزور ویقسم لحمھا حتی أستأنس بکم وأعلم ماذا أراجع بہ رسل ربی؟ “

(رواہ مسلم (المصدر السابق) 

(الدر المختار مع رد المحتار، ، ۳: ۱۴۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

 “ویستحب …بعد دفنہ لدعاء وقراء ة بقدر ما ینحر الجزور ویفرق لحمہ ” 

اپنا تبصرہ بھیجیں