یہ سورت تقریباً سن ۲ہجری کے آس پاس مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ہے ،اوراس کے بیشتر مضامین جنگ بدر اوراس کے واقعات اور مسائل سے متعلق ہیں، یہ جنگ عظیم اسلام اورکفر کے درمیان پہلے باقاعدہ معرکے کی حیثیت رکھتی ہے،جس میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کو فتح مبین عطا فرمائی اور قریش مکہ کوذلت آمیز شکست سے دوچار کیا
* چنانچہ اس سورت میں اللہ تعالی نے اپنے انعامات بھی یاد دلائے ہیں
* اورمسلمانوں نے جس جاں نثاری کے ساتھ یہ جنگ لڑی اس کی ہمت افزائی کے ساتھ بعض ان کمزوریوں کی بھی نشان دہی فرمائی ہے جو اس جنگ میں سامنے آئیں
* آئندہ کے لئے وہ ہدایات بھی دی گئی ہیں جو ہمیشہ مسلمانوں کی کامیابی او رفتح ونصرت کا سبب بن سکتی ہیں
* جہاد اور مال غنیمت کی تقسیم کے بہت سے احکام بھی بیان ہوئے ہیں
* چونکہ جنگ بدر اصل میں کفار مکہ کے ظلم وستم کے پس منظر میں پیش آئی تھی ،اس لئے ان حالات کا بھی ذکر کیاگیا ہے جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ مکرمہ سے ہجرت کا حکم ہوا،نیز جو مسلمان مکہ مکرمہ میں رہ گئے تھے،ان کے لئے بھی ضروری قرار دیاگیا ہے وہ ہجرت کرکے مدینہ منورہ آجائیں
* ہجرت کے وجہ سے میراث کی تقسیم سے متعلق کچھ احکام عارضی طور پر نافذ کئے گئے تھے ،سورت کے آخر میں اسی وجہ سے میراث کے کچھ مستقل احکام دئے گئے ہیں
جنگ بدر
چونکہ اس سورت کے بہت سے مضامین جنگ بدر کے مختلف واقعات سے متعلق ہیں ،اس لئے ان کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لئے اس جنگ کے بارے میں کچھ بنیادی معلومات یہاں پیش کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے؛ تاکہ اس سے متعلق آیات کو ان کے صحیح پس منظر میں سمجھا جاسکے۔
مکہ مکرمہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے بعد تیرہ سال مقیم رہے اس دوران مکہ مکرمہ کے کفار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جاں نثار صحابہ(رضی اللہ عنہم) کو طرح طرح سے ستانے اورناقابل برداشت تکلیفیں پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی یہاں تک کہ ہجرت سے ذرا پہلے آپ کو قتل کرنے کا باقاعدہ منصوبہ بنایاگیا جس کا ذکر اسی سورت میں آنے والا ہے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے آئے توکفار مکہ اس فکر میں رہے کہ آپ کو وہاں بھی چین سے بیٹھنے نہ دیاجائے انہوں نے عبداللہ ابن ابی کو مدینہ منورہ میں خط لکھا کہ تم لوگوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے ساتھیوں کو پناہ دی ہے اب یاتو تم انہیں پناہ دینے سے ہاتھ اٹھالو ورنہ ہم تم پر حملہ کریں گے (دیکھئے سنن ابوداؤد،کتاب الخراج باب ۲۳ حدیث نمبر:۳۰۰۴) انصار میں سے اوس کے قبیلے کے سردار حضرت سعد بن معاذؓ ایک مرتبہ مکہ مکرمہ گئے تو عین طواف کے دوران ابوجہل نے ان سے کہا کہ تم نے ہمارے دشمنوں کو پناہ دے رکھی ہے اوراگر تم ہمارے ایک سردار کی پناہ میں نہ ہوتے توزندہ واپس نہیں جاسکتے تھے جس کا مطلب یہ تھا کہ آئندہ اگر مدینہ منورہ کا کوئی آدمی مکہ مکرمہ آئے گا تو اسے قتل کردیا جائے گا حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں ابوجہل سے کہہ دیا کے اگر تم ہمارے آدمیوں کو مکہ مکرمہ آنے سے روکو گے تو ہم تمہارے لئے اس سے بھی بڑی رکاوٹ کھڑی کردیں گے،یعنی تم تجارتی قافلے لے کر جب شام جاتے ہو توتمہارا راستہ مدینہ منورہ کے قریب سے گزرتا ہے، اب ہم تمہارے قافلوں کو روکنے اور ان پر حملہ کرنے میں آزاد ہوں گے۔(دیکھئے صحیح بخاری،کتاب المغازی،باب۲،حدیث نمبر:۳۹۵) اس کے بعد کفار مکہ کے کچھ دستے مدینہ منورہ کے آس پاس آئے اور مسلمانوں کے مویشی لوٹ کر لے گئے ،حالات کے اس پس منظر میں ابوسفیان (جو اس وقت کفار مکہ کا سردار تھا)ایک بڑا بھاری تجارتی قافلہ لے کر شام گیا،اس قافلے میں مکہ مکرمہ کے ہر مرد وعورت نے سونا چاندی جمع کرکے تجارت میں شرکت کی غرض سے بھیجا تھا،یہ قافلہ شام سے سوفی صد نفع کماکر واپس آرہا تھا یہ قافلہ ایک ہزار اونٹوں پر مشتمل تھا اور پچاس ہزار دینار(گنیوں)کا سامان لارہا تھا اور اس کے ساتھ چالیس مسلح افراد اس کی حفاظت پر متعین تھے، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قافلے کی واپسی کا پتہ چلا تو حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے چیلنج کے مطابق آپ نے اس قافلے پر حملہ کرنے کا ارادہ فرمایا، اس کے لئے باقاعدہ سپاہیوں کے بھرتی کا موقع نہیں تھا اس لئے وقت پر جتنے صحابہ تیار ہوسکے ان کی تعداد تین سو تیرہ تھی ،کل ستر اونٹ اور دوگھوڑے تھے ،ساٹھ زرہیں تھیں، اس مختصر سامان کے ساتھ آپ مدینہ منورہ سے نکلے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بعض غیرمسلم مصنفین نے اس واقعے پر یہ اعتراض کیا ہے کہ ایک پر امن تجارتی قافلے پر حملہ کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا، ہمارے زمانے کے بعض مسلمان مصنفین نے اس اعتراض سے مرعوب ہوکر یہ دعوی کرنے کی کوشش کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ قافلے پر حملہ کرنے کا نہیں تھا ؛بلکہ ابوسفیان نے اپنے طور پر خطرہ محسوس کرکے ابوجہل کے لشکر کو دعوت دی تھی لیکن واقعے کی یہ تشریح صحیح احادیث اور قرآنی اشارات کی روشنی میں درست نہیں ہے در حقیقت یہ اعتراض اس وقت کے حالات اوراس دور کے سیاسی دفاعی اور معاشرتی ڈھانچے سے بے خبری پر مبنی ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ جو واقعات ہم نے اوپر بیان کئے ہیں ان کی روشنی میں فریقین کے درمیان ایک مسلسل جنگ کی حالت موجود تھی دونوں نے ایک دوسرے کو نہ صرف چیلنج دے رکھے تھے بلکہ کفار کی طرف سے عملی طور پر چھیڑ چھاڑ بھی شروع ہوچکی تھی ،دوسرے حضرت سعد بن معاذ پہلے سے انہیں متنبہ کر آئے تھے کہ وہ ان کے قافلوں پر حملہ کرنے کے لئے آزاد ہوں گے ،تیسرے اس دور میں شہری اور فوجی افراد کی کوئی تفریق نہیں ہوتی تھی، کسی معاشرے کے تمام بالغ مرد مقاتلہ یعنی لڑنے والے کہلاتے تھے،چنانچہ قافلے کی سرکردگی ابو سفیان کے ہاتھ میں تھی جو اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کھلا دشمن تھا اور اس کے ساتھ چالیس مسلح افراد میں سے ہر ایک قریش کے ان لوگو ں میں سے تھا جو مسلمانوں کو ستانے میں پیش پیش رہے تھے ،اورمسلمانوں کے خلاف جنگ کی تیاری کررہے تھے او ریہ قافلہ بھی اگر کامیابی سے مکہ مکرمہ پہنچ جاتا تو قریش کی جنگی طاقت میں بڑے اضافے کا سبب بنتا ،ان حالات میں اس کو ایک پر امن تجارتی قافلے پر حملہ قرار دینا اس وقت کے حالات سے ناواقفیت یا محض عناد کا کرشمہ ہے ، اوراس کی وجہ سے ان واقعات کا انکار کرنا کسی طرح درست نہیں ہے جو صحیح احادیث سے ثابت ہیں۔
بہر حال جب ابو سفیان کو آپ کے ارادے کا اندازہ ہواتو اس نے ایک طرف تو ایک تیز رفتار ایلچی ابوجہل کے پاس بھیج کر اس واقعے کی اطلاع دی، اوراسے پورے لاؤلشکر کے ساتھ آپ پر حملہ کرنے کا مشورہ دیا ،اور دوسری طرف اپنے قافلے کا راستہ بدل کر بحر احمر کے ساحل کی طرف نکل گیا؛ تاکہ وہاں سے چکر کاٹ کر مکہ مکرمہ پہنچ سکے، ابوجہل نے اس موقع کو غنیمت سمجھ کر ایک بڑا لشکر تیار کیا او رلوہے میں غرق ہوکر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب پتہ چلا کہ ابوسفیان تو قافلہ لے کر نکل چکا ہے ،اورابوجہل کا لشکر آرہا ہے تو آپ نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا، سب نے یہی رائے دی کہ اب ابوجہل سے ایک فیصلہ کن معرکہ ہوجانا چاہئے ،چنانچہ بدر کے مقام پر دونوں لشکروں کا مقابلہ ہوا، مسلمانوں کی تعداد اور ساز وسامان ابوجہل کے لشکر کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا؛ لیکن اللہ تعالی کے فضل وکرم سے مسلمانوں کو شاندار فتح حاصل ہوئی، ابوجہل سمیت قریش کے ستر سردار جو مسلمانو ں کی دشمنی میں پیش پیش تھے ،مارے گئے ،اور دوسرے ستر افراد گرفتار ہوئے ،اور باقی لوگ میدان سے بھاگ کھڑے ہوئے۔