یہ سورت بھی ہجرت سے پہلے نازل ہوئی تھی اور اس کا بنیادی موضوع اسلام کے بنیادی عقائد یعنی توحید،رسالت اور آخرت کا اثبات اوران پر عائد کئے جانے والے اعتراضات کا جواب ہے
* پچھلی سورت سورۂ یوسف کے آخر(آیت نمبر:۱۰۵) میں اللہ تعالی نے فرمایا تھا کہ آسمانوں اور زمین میں اللہ تعالی کی قدرت کاملہ اوراس کی وحدانیت کی بہت سی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں لیکن کفار ان کی طرف دھیان دینے کے بجائے ان سے منہ موڑے ہوئے ہیں اب اس سورت میں کائنات کی ان نشانیوں کی کچھ تفصیل بیان فرمائی گئی ہے جوپکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ جس قادر مطلق نے اس کائنات کا یہ محیرالعقول نظام بنایا ہے اسے اپنی خدائی قائم کرنے کے لئے کسی مددگار یا شریک کی ضرورت نہیں ہے اگر انصاف کے ساتھ غور کیا جائے تواس کائنات کا ہر ذرہ اللہ تعالی کی توحید کی بھی گواہی دیتا ہے اوراس بات کی بھی کہ یہ سارا نظام اس نے بے مقصد پیدا نہیں کردیا اس کا یقیناً کوئی مقصد ہے اوروہ یہ کہ اس دنیوی زندگی میں کئے ہوئے ہر کام کا کسی دن حساب ہو اور اس دن نیکیوں کا انعام او ربرائیوں کی سزا دی جائےاس سے خود بخود آخرت کا عقیدہ ثابت ہوتا ہے۔
* پھر نیکی او ربرائی کا تعین کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے واضح ہدایات بندوں کو دی جائیں ان ہدایات کا ذریعہ اللہ تعالی کے پیغمبر ہیں جو وحی کے ذریعے اللہ تعالی کے احکام معلوم کرکے دنیا والوں تک پہنچاتے ہیں لہذا اسی سے رسالت کا عقیدہ بھی ثابت ہوتا ہے کائنات کی جو نشانیاں اس سورت میں بیان کی گئی ہیں ان میں بادلوں کی گرج چمک بھی ہے جس کا ذکر اس سورت کی آیت نمبر۱۳ میں آیا ہے ،عربی میں گرج کو رعد کہاجاتا ہے ،اسی پر اس سورت کا نام رعد رکھا گیا ہے۔
Load/Hide Comments