توبہ کے بعد سودی قرضہ کی واپسی کا حکم

سوال:بینک سے قرض لے کر گھر اور گاڑی لی انٹرسٹ بھی لگ رہا ہے۔ اب معلوم ہوا کہ وہ سود ہے حرام ہے۔ اب معافی بھی مانگ لی اللہ سے مگر بیس سال تک تنخواہ سے وہ پیسے کاٹے جائیں گے۔ اب اس سے بچنے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ گولڈ بیچ کر پوری رقم انٹرسٹ سمیت ادا کر دیں گے تو بھی سود ہی ہو گا۔

الجواب باسم ملھم الصواب
صورت مسؤلہ میں سودی لین دین سے مکمل توبہ کرنے والا شخص  جس نے دوبارہ کبھی سودی لین دین نہ کرنے کا پختہ عزم کر لیا ہے اور اپنے ماضی پر پشیمان بھی ہے، اور نظام ایسا ہے کہ سود دیے بغیر اس کی جان نہیں چھوٹ سکتی ، وگرنہ اسے جیل یا قید خانے میں ڈال دیا جائے گا، تو ایسا قرضہ کی ادائیگی جلد از جلد جس طرح ممکن ہو کر کے اس سے اپنی جان چھڑوا لی۔ اس صورت میں مجبوراً دیے گئے سود پر اللہ کی ذات سے امید ہے کہ آخرت میں مؤاخذہ بھی نہ ہو گا، اس کا سارا گناہ سود لینے والے پر ہوگا، لیکن ساتھ ساتھ استغفار بھی کرتا رہے اور آئندہ سودی لین دین سے مکمل توبہ کا عزم کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1:صحيح مسلم: (باب لعن آکل الربوا، رقم الحدیث: 1598)
عن جابرؓ قال: “لعن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم آکل الربا، ومؤکلہ، وکاتبہ،
وشاہدیہ، وقال: ہم سواء“۔

2:روى ابن ماجة (4250)
عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( التائب من الذنب كمن لا ذنب له )

3:الأشباه و النظائر: (ص: 149، قدیم)
”یجوز للمحتاج الاستقراض بالربح“۔
وتحتہ في الحموي: وذلک نحو أن یقرض عشرۃ دنانیر مثلاً ویجعل لربہا شیئًا معلومًا في کل یوم ربحًا“۔
والله سبحانه وتعالى اعلم
تاريخ:24جون2023
5ذوالحج1444

اپنا تبصرہ بھیجیں