ترکی میں اسلامائزیشن اور اس کے لیے کیے گئے اقدامات

 ترکی میں اسلام پسندوں کی کامیابیاں اور ناکامیاں سے متعلق چند گزارشات عرض خدمت ہیں:

 ترکی میں جب لبرل ازم حاوی ہوا تو 6 سے 8 سو سال دینی رشتے میں بڑی مضبوطی سے جڑے ہوئے مسلمان نہایت سختی کا شکار ہو گئے۔

پھر اس جبری نظام کا نگران اس فوج کا بنا دیا گیا، تاکہ کوئی سانس نہ لے سکے. جس حرف سے خدا پرستی کی بو آتی ہو، اسے بھی نہ لیا جا سکے۔

 یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اگر ترکی لوگ اتنے مشکل حالات سے نکل کر اپنی نمایاں شناخت بنا سکتے ہیں تو ہم اہل پاکستان کیوں نہیں. ہم تو ایسے حالات کا شکار نہیں۔

 ترکی میں اصلاح پسندوں کا سفر ایک موٹر کی تیاری سے ہوا. ایک انجینئر کو جرمنی طلب کیا گیا، اس نے کہا کہ میں یہی کام اپنے ملک کے لیے کیوں نہ کروں؟ اس انجینئر کا نام نجم الدین اربکان تھا۔

 وہ اس ملک میں تبدیلی لانا چاہتا تھا. سیاسی تبدیلی لانے کی کوشش میں وہ سب سے پہلے تعلیمی و رفاہی میدان میں آ گیا. ٹیوشن سنٹر سے تعلیمی مہم کا آغاز کیا۔

 تعلیمی میدان کے بعد وہ رفاہی میدان میں آ گئے. سب سے زیادہ رفاہی خدمات وہاں ہو رہی ہے۔

 وہ طلبہ کو سہولت دیتے تھے. وہ اپنی تنظیم میں شامل نہیں کرتے، بلکہ صرف محبت دیتے ہیں اور ہمدردی دیتے ہیں۔

 وہاں جو بہت بڑی تبدیلی آئی، دراصل بے لوث محبت کرنے کی وجہ سے آئی. لوگ بہت زیادہ سمجھنے کی کوشش کرتے کہ آخر ان کا اس میں مفاد کیا ہے، مگر اسے یہی سمجھ میں آتا کہ ان کا مقصد صرف محبت دینا ہے۔

 رفاہی کام ان میں اتنا رچ بس گیا ہے کہ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ اتنا خرچ کیوں کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہماری بچت کا اس سے اچھا مصرف کیا ہو سکتا ہے۔

 اس کے بعد ان کا تیسرا منہج سیاست ہے. اس راستے میں ان کو بہت زیادہ قربانیاں دینی پڑیں. عظیم ترکی صدر کو صرف اذان کا ترجمہ پکارنے پر ایک جزیرے میں لے جا کر پھانسی دے دی گئی۔

 ان کے ہاں سیاسی ذہن سازی تقریروں کی بنیاد پر نہیں، بلکہ عوام کی نفسیات کو دیکھ کر کی جاتی ہے۔

 ان کا اسلوب یہ ہے کہ گلی محلے کی سطح کی سیاست کی جائے. ترکی کی 81 ولایتیں ہیں، وہ مجموعی طور پر ان کو خود دیکھتے ہیں. قابل لوگ منصب پر بٹھائے ہوئے ہیں۔

 وہاں سارا کام دین داری کے عنوان کے بغیر ہوا ہے. دکانوں میں، کھیل کے کلب میں، قہوہ خانے میں لوگ مختلف عنوانات سے لوگوں کی دین کی تربیت دیتے ہیں. مولانا رومی رحمہ اللہ کی کتاب کا درس دیتے ہیں. اسے “صحبت” کہتے ہیں۔

وہاں کے شیخ محمود آفندی دامت برکاتہم تصوف کے میدان میں بہت محنت کر رہے ہیں. وہ خواتین پر بھی بہت زیادہ محنت کر رہے ہیں. پابندی کے باوجود تقریباً 300 مکاتب چلا رہے ہیں. وہ اپنے میدان کے مجدد ہیں۔

 انجینئر اربکان میں یہ تبدیلی وہاں کے مشائخ کی محنتوں سے آئی. اربکان چائے میں آتے. شیخ نے ان کو متاثر کیا۔

 ترکی میں شروع میں دائیں اور بائیں بازو والوں کا جھگڑا اور سرپھٹول ہوتا تھا. لوگ ہر روز زخمی ہوتے تھے. اربکان نے آ کر عدم تشدد کا ذہن بنایا. قانون شکنی کرنے پر پارٹی سے نکالنے کی دھمکی دی. اس کے بعد لوگوں نے حکمت سے کام لینا شروع کیا۔

 51 فیصد پر کھڑے ہیں. بہت سے مسائل کے باوجود وہ ڈٹے ہوئے ہیں. مخالف قوتیں دو ہزار تیئیس سے پہلے پہلے انہیں ہٹا دینے پر تلے ہوئے ہیں. اللہ سب اہل حق کی مدد کرے۔

میڈیا رپورٹنگ ٹیم فضلاء تربیتی اجتماع 2019ء

حضرت مفتی ابولبابہ صاحب دامت برکاتہم
نگران شعبہ تخصصات، جامعۃ الرشید

اپنا تبصرہ بھیجیں