وکیل کا زکوۃ کی رقم قرض دینا

سوال: ایک شخص نے زکوٰۃ کی رقم ایک لاکھ روپے دوسرے شخص کو دے دی کہ ہر مہینے اس رقم میں سے کچھ لوگ کو راشن تقسیم کرتے رہو، اب کسی شخص کو رقم کی ضرورت ہوتی ہے تو کیا اس زکوٰۃ کی رقم سے قرض دیا جاسکتا ہے-

الجواب باسم ملھم الصواب

واضح رہے کہ اگر زکوٰۃ کی رقم کسی دوسرے شخص نے آپ کو زکوۃ کے مصرف میں خرچ کرنے کے لیے دی ہے جیسا کہ سوال سے بھی یہی ظاہر ہورہا ہے تو پھر اس رقم کو قرض میں دینا یا اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ؛ کیونکہ یہ امانت ‌کی رقم ہے اور اس کو زکوٰۃ دینے والے کی اجازت کے بغیر کسی اور مصرف میں استعمال کرنا جائز نہیں- البتہ اگر کوئی شخص مستحق زکوٰۃ ہے تو یہ رقم قرض کہہ کر دی جا سکتی ہے ، بشرطیکہ واپس نہ لی جائے –
____________
حوالہ جات :

1: ولا يخرج عن العهدة بالعزل بل بالأداء للفقراء۔
(قوله: ولا يخرج عن العهدة بالعزل) فلو ضاعت لا تسقط عنه الزكاة ولو مات كانت ميراثا عنه، بخلاف ما إذا ضاعت في يد الساعي لأن يده كيد الفقراء. بحر عن المحيط. (الدر المختار مع رد المحتار: 2/ 270).

2: الوكيل إنما يستفيد التصرف من الموكل وقد أمره بالدفع إلى فلان فلا يملك الدفع إلى غيره كما لو أوصى لزيد بكذا ليس للوصي الدفع إلى غيره“

(الدر المختار مع رد المحتار۔ 3/189 )

3:”سئل عمر الحافظ عن رجل دفع إلی الآخر مالاً، فقال لہ: ”ھذا زکاة مالي فادفعھا إلی فلان“ ، فدفعھا الوکیل إلی آخر ھل یضمن؟ فقال: نعم، لہ التعیین“

(الفتاوی التاتارخانیة، کتاب الزکوة، 3/228)
واللہ اعلم بالصواب
8 ذی القعدہ 1444
28 مئی 2023

اپنا تبصرہ بھیجیں