والد کا زندگی میں گھر کاحصہ دینا

سوال:السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
10 مرلے کے مکان میں 3 بھائی 3 بہنیں ہوں تو شرعی اعتبار سے ہر ایک کوکتنا حصہ ملے گا؟

تنقیح: کیا دونوں والدین حیات ہیں۔
مکان کی مالیت کتنی ہے؟

جواب تنقیح:
والدہ وفات پا چکی ہیں۔ والدحیات ہیں اور والد ہی کے نام گھر ہے۔ والد کے دونوں والدین وفات پا چکے ہیں، سگا بہن بھائی بھی کوئی نہیں، صرف چھ بچے ہیں.

الجواب باسم ملہم الصواب
واضح رہے اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو جائیداد میں سے کچھ دینا یا تقسیم کرناچاہے تو یہ ہبہ کہلاتا ہے۔ ہبہ کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اپنی جائیداد میں سے اپنے لیے جتنا چاہے رکھ لے، تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے، اور بقیہ مال اپنی تمام اولاد میں برابر تقسیم کردے، یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو دے، نہ کسی کو محروم کرے، اور نہ ہی بلا وجہ کمی بیشی کرے، البتہ اگر وہ اولاد میں سے کسی کو معقول وجہ (مثلا اولاد میں سے کسی کی مالی حالت کمزور ہونے، زیادہ خدمت گزار ہونے، علم دین میں مشغول ہونے، یا کسی اور وجہ فضیلت کی وجہ) سے زیادہ دیتا ہے، اور اس سے دوسرے بچوں کو محروم کرنا یا نقصان پہنچانا مقصود نہ ہو، تو شرعاً وہ گناہ گار نہیں ہوگا۔البتہ اگر وراثت کے طریقہ پر بیٹے کو دو حصے اور بیٹی کو ایک حصہ دینا چاہے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔
——————————————–
حوالہ جات:
1.سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، وَهُوَ عَلَى المِنْبَرِ يَقُولُ: أَعْطَانِي أَبِي عَطِيَّةً، فَقَالَتْ عَمْرَةُ بِنْتُ رَوَاحَةَ: لاَ أَرْضَى حَتَّى تُشْهِدَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي أَعْطَيْتُ ابْنِي مِنْ عَمْرَةَ بِنْتِ رَوَاحَةَ عَطِيَّةً، فَأَمَرَتْنِي أَنْ أُشْهِدَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «أَعْطَيْتَ سَائِرَ وَلَدِكَ مِثْلَ هَذَا؟»، قَالَ: لاَ، قَالَ: «فَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْدِلُوا بَيْنَ أَوْلاَدِكُمْ»، قَالَ: فَرَجَعَ فَرَدَّ عَطِيَّتَهُ.
(صحیح بخاری: 2587)
حضرت نعمان بن بشیر  ؓ سے روایت ہے، انھوں نے برسرمنبر کہا کہ میرے والد نے مجھے کچھ عطیہ دیا تو میری والدہ حضرت عمر ہ بنت رواحہ  ؓ نے کہا: میں اس وقت تک راضی نہیں ہوں گی جب تک تم رسول اللہ ﷺ کو اس پر گواہ نہ بناؤ۔ لہذا وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا: میں نے حضرت عمرہ بنت رواحہ  ؓ کے بطن سے پیدا ہونے والے اس بیٹے کو کچھ عطیہ دیاہے۔ اللہ کے رسول ﷺ !عمرہ کے کہنے کے مطابق آپ کو اس پر گواہ بنانا چاہتا ہوں۔ آپ نے دریافت کیا: ’’ آیا تم نے اپنی تمام اولاد کو اتنا ہی دیا ہے؟‘‘ اس نے کہا: نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل وانصاف کیا کرو۔‘‘ حضرت نعمان  ٍ کا بیان ہے کہ(یہ سن کر) میرے والد لوٹ آئے اور انھوں نے دی ہوئی چیز واپس لے لی۔
—————————————–
1.”(قوله فروع) ‌يكره ‌تفضيل ‌بعض ‌الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين.”
(البحر الرائق: جلد 7،صفحہ 288)

2.وفي الخانية لابأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالإبن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم..
(الفتاوی شامیہ:جلد 5، صفحہ 696)

3.أن شرط الإرث وجود الوارث حيا عند موت المورث.
(الفتاوی شامیہ:جلد 6، صفحہ 769)

4. وقال مشایخ بلخ: الارث یجری بعد موت المورث.
(الفتاوی التاتارخانیہ: جلد 20 ، صفحہ 215)

5.الترکة اصطلاحا: ما بقی بعد المیت من مالہ صافیا عن تعلق حق الغیر بعینہ.
(سراجی:صفحہ 5)

6.اختلف العلماء فی طریق ھذا العدل والتسویہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان التسویۃ المطلوبۃبین الاولاد ان یقسم علیھم حسب قسمۃالمیراث للذکر مثل حظ الانثیین۔
قد ثبت بما ذکرنا ان المذھب الجمھور فی التسویۃ بین الذکرو الانثی فی حالۃ الحیاۃ اقوی وارجع من حیث الدلیل۔۔۔۔ واما اذا اراد الرجل ان یقسم املاکہ فیمابین اولادہ فی حیاتہ۔۔۔۔۔۔فانہ وان کان ھبۃ فی اصطلاح الفقھی۔ فلو قسم رجل فی مثل ھذہ الصورۃ للذکر مثل حظ الانثیین علی قول الامام احمد۔و محمد بن الحسن رحمھما اللہ،فالظاھر ان ذلک یسع لہ،ولم ار ذلک صریحا فی کلام الفقھا، غیر انہ لا یبدو خارجا عن قواعدھم، واللہ سبحانہ و تعالی اعلم۔
(فتح الملھم: جلد 8، صفحہ 67-68)
—————————————
1. وراثت مرنے کے بعد تقسیم ہوتی ہے، زندگی میں والدین اپنی اولاد کو جو کچھ دیتے ہیں، وہ ان کی طرف سے عطیہ ہے، اس کو وراثت سمجھنا صحیح نہیں، اور وارثوں میں کسی وارث کو محروم کرنے کی وصیت کرنا بھی جائز نہیں۔ البتہ اگر وارث سب عاقل و بالغ ہوں تو اپنی خوشی سے ساری وراثت ایک وارث کو دے سکتے ہیں، والدین اپنی اولاد کو جو عطیہ دیں اس میں حتی الوسع برابری کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو۔
(آپ کے مسائل اور ان کا حل: جلد6 صفحہ 417-418)
————————————–
واللہ اعلم بالصواب
5اکتوبر2022
9 ربیع الاول1444

اپنا تبصرہ بھیجیں