وجود باری تعالی: قسط نمبر 2

وجود باری تعالی: قسط نمبر 2

تحریر :مفتی انس عبدالرحیم

وجودباری تعالی پر سبق آموز واقعات

ایک ملحد ٹیچرکلاس روم میں بچوں کے سامنے ریماکس دے رہا تھا : دیکھو بچو!دنیا میں کوئی خدا نہیں ہے،اس لیے کہ سائنس کہتی ہے کہ جب تک کوئی چیز مشاہدے میں نہ آئے اسے تسلیم نہ کرو! اگر خدا موجود ہوتے تو نظر ضرور آتے،چونکہ وہ نظر نہیں آتے اس لیے وہ موجود بھی نہیں۔

کلاس روم میں ایک سمجھ دار طالب علم موجود تھا اس نے کھڑے ہوکر کہا: سرجی!آپ کے دماغ میں عقل ہے؟ٹیچر نے کہا: بالکل عقل ہے۔تب ہی تو میں یہ لیکچر آپ کو دے رہا ہوں۔طالب علم نے کہا: جواستدلال آپ نے پیش کیا ہے اس کے مطابق آپ کے سر میں عقل نہیں ہے ؛کیونکہ سائنس کہتی ہے کہ جب تک کوئی چیز دیکھ نہ لو اسے تسلیم نہ کرو!ہمیں آپ کی عقل نظر نہیں آرہی اس لیے ہم یہی اخذ کررہے ہیں کہ آپ کے سر میں عقل نہیں ہے۔اور اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ عقل ہے تب ہی میں اتنا اچھا سا لیکچر دے رہا ہوں تو یہی استدلال یہاں بھی اپلائی ہوگا کہ خدا کا وجود اس لیے ہے کہ اتنی خوب صورت اور وسیع کائنات خود سے کبھی نہیں بن سکتی ،ضرور اسے کسی بڑی عظیم ہستی نے بنایا ہے!!! یہ کائنات کسی اتفاقی حادثے کے نتیجے میں وجود میں نہیں آئی بلکہ اس کا ایک خالق ہےجس نے اسے وجود بخشاہے۔کسی چیز کا نظر نہ آنا اس بات کی دلیل ہرگز نہیں کہ وہ موجود نہیں۔دیکھیے نا!بجلی ،بخار،آواز،خوشبو،روح،خیالات اور بے شمار چیزیں ہیں جو نظر نہیں آتیں،لیکن ان کیا ان کا وجودنہیں ہے؟سب نے بیک آواز کہا:کیوں نہیں،ضرور موجود ہیں ۔طالب علم نے کہا:اسی طرح اللہ پاک موجود ہیں اگرچہ نظر نہیں آتے۔

ذراسوچیے! جس طرح ایک چھوٹی سی محفل کسی کے منعقد کئے بغیر سجتی نہیں تو یہ اتنی بڑی کائنات بغیر کسی ہستی کے کیسے قائم رہ سکتی ہے وہ ’’اللہ ‘‘ ہی کی ہستی ہے۔

اس نے بات جاری رکھتے ہوئے ایک مثال سے بات واضح کی کہ دیکھیے!ہماری آنکھوں میں یہ صلاحیت ہی نہیں ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کو دیکھ سکیں۔ اس بات کو ہم ایک مثال سے سمجھتے ہیں: سورج کی روشنی بہت تیز ہوتی ہے جب ہم اسے دیکھتے ہیں تو ہماری آنکھیں چندھیا جاتی ہیں جبکہ یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق ہےاسے ہم دیکھ نہیں پاتے تو اللہ تعالیٰ کو کس طرح دیکھ سکتے ہیں اور پھر یہ بات ضروری نہیں ہے کہ جو چیز دنیا میں موجود ہے وہ نظر بھی آئے بہت سی چیزیں دنیا میں موجود تو ہیں لیکن ہمیں نظر نہیں آتیں، جیسے: ہوا ، گیس ، سانس اور ٹمپریچر وغیرہ۔

طلبہ بہت خوش ہوئے جبکہ ٹیچر کا سرشرم سے جھک گیا۔اس نے حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئےطالب علم کے سرپر ہاتھ پھیرا اوراسے شاباشی دی۔کلاس روم تالیوں سے گونج اٹھا۔

دوسرا واقعہ

ایک بڑھیا سے کسی نے پوچھا کہ اماں جی ! آپ نے اپنے رب کو کیسے پہچانا؟ اس نے کہا:اپنے اس چرخے سے (دورحاضر میں سلائی مشین بھی کہہ سکتے ہیں ) پوچھا گیا : وہ کیسے؟ اس نے کہا: دیکھو بیٹا! میں جب تک یہ چرخا چلاتی رہتی ہوں یہ چلتا رہتا ہے اور جیسے ہی چلانا بند کردیتی ہوں یہ نہیں چلتا۔میں نے سوچا کہ جب یہ چھوٹی سی چیز بغیر چلانے والے کے خود سے نہیں چل سکتی تو اتنی بڑی کائنات بغیر چلانے والے کے خود سے کیسے چل سکتی ہے؟

امام ابوحنیفہ کا ایک ملحد سے مناظرہ:

امام ابو حنیفہ کے زمانے میں خلیفہ کے دربار میں ایک دہریہ آیا،اس نے کہا میں نہیں مانتا کہ خدا موجود ہے، یہ کائنات طبعی رفتار سے خود بنی ہے اور خود چل رہی ہے۔لوگ مر رہے ہیں اور پیدا ہو رہے ہیں وغیرہ.یہ سب ایک طبعی کارخانہ ہے کوئی بنانے والا نہیں ہے، اور اس نے چیلنج کیا کہ مسلمانوں میں جو سب سے بڑا عالم ہو،اس کو میرے مقابلے میں لایا جائے تاکہ اس سے بحث کروں۔

اس زمانے میں سب سے بڑے عالم امام ابوحنیفہؒ تھے. خلیفہ نے امام صاحبؒ کے پاس ایک آدمی کے ساتھ یہ پیغام بھیجا کہ وہ آ کر اس دہریے سے بحث کریں ،اور اسے سمجھائیں اور راہ راست پر لائیں، رات کا وقت تھا، رات ہی کو خلیفہ کا دربار منعقد ہوتا تھا۔ چنانچہ آدمی پہنچا۔

بغداد میں ایک بہت بڑا دریا ہے، اسے دجلہ کہتے ہیں، اس کے ایک جانب شاہی محلات تھے، ایک جانب شہر. امام ابو حنیفہؒ شہر میں رہتے تھے اس لیے دریا پار کرکے آنا پڑتا تھا، اس نے کہا اصل میں دربار میں ایک دہریہ آ گیا ہے، اور وہ دعویٰ کر رہا ہے کہ خدا کا وجود نہیں ہے، کائنات خود بخود چل رہی ہے، آپ کو مناظرہ کے لیے بلایا ہے۔

امام صاحبؒ نے فرمایا: اچھا آپ جا کے کہہ دیں کہ میں آ رہا ہوں، وہ آدمی واپس گیا اور کہا کہ امام صاحبؒ کو میں نے خبر کر دی ہے ،وہ آنے والے ہیں۔

اب دربار لگا ہوا ہے۔خلیفہ، امراء، وزراء بیٹھے ہوئے ہیں اور دہریہ بھی بیٹھا ہوا ہے، امام صاحبؒ کا انتظار ہے مگر امام صاحب نہیں آ رہے۔ رات کافی گزرگئی امام صاحبؒ ندارد۔دہریے کی بن آئی، اس نے کہا معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحبؒ ڈر گئے ہیں اور سمجھ گئے ہیں کہ کوئی بڑا فلسفی آیا ہے۔میں اس سے نمٹ نہیں سکوں گا،اس واسطے گھر میں چھپ کر بیٹھ گئے اور آپ یقین رکھیں وہ نہیں آئیں گے، میرے مقابلے میں کوئی نہیں آ سکتا۔اب خلیفہ بھی متامل ہے، درباری بھی حیران ہیں اور دہریہ بیٹھا ہوا شیخی دکھا رہا ہے۔جب رات کا ایک بجا تو امام صاحب دربار میں حاضر ہوئے، خلیفہ وقت نے تعظیم کی،تمام دربار کھڑا ہو گیا۔

خلیفہ نے امام صاحبؒ سے کہا کہ آپ اتنی دیر میں کیوں آئے؟آدمی رات کے آٹھ بجے بھیجا گیا تھا، اب رات کا ایک بجا ہے، آخر اتنی تاخیر کی کیا وجہ پیش آئی؟ امام صاحبؒ نے فرمایا کہ ایک عجیب و غریب حادثہ پیش آ گیاجس کی وجہ سے مجھے دیر لگی اور عمر بھر میں، میں نے ایسا واقعہ کبھی نہیں دیکھا تھا، میں حیران ہوں کہ کیا قصہ پیش آیا، اس شد و مد سے بیان کیا کہ سارا دربار حیران ہو گیا کہ کیا حادثہ پیش آگیا۔فرمایا :بس عجیب و غریب ہی واقعہ تھا اور خود مجھے بھی ابھی تک سمجھ میں نہیں آیا، کہ کیاقصہ تھا؟جب سارے دربار کو خوب شوق دلا دیا اور سب سرتاپا شوق بن گئے، حتیٰ کہ خود امیر المومنین نے کہا کہ فرمائیے کیا قصہ پیش آیا۔

فرمایا:’’ قصہ یہ پیش آیا، جب میں شاہی محل میں آنے کے لیے نکلا تو دریا بیچ میں تھا، دریا کے کنارے پر جو پہنچا تو اندھیری رات تھی، نہ کوئی ملاح تھا نہ کشتی تھی، آنے کا کوئی راستہ نہ تھا۔میں حیران تھا کہ دریا کو کس طرح پار کروں، اس شش و پنج میں کھڑا ہوا تھا کہ میں نے یہ حادثہ دیکھا کہ دریا کے اندر سے خود بخود لکڑی کے نہایت عمدہ بنے ہوئے تختے نکلنے شروع ہوئے اور ایک کے بعد ایک نکلتے چلے آ رہے ہیں، میں تحیر سے دیکھ رہا تھا کہ یا اللہ! دریا میں سے موتی نکل سکتا ہے، مچھلی نکل سکتی ہے۔مگر یہ بنے بنائے تختے کہاں سے آئے؟ ابھی میں اسی حیرت میں تھا کہ اس سے زیادہ عجیب واقعہ پیش آیا کہ تختے خود بخود جڑنے شروع ہوئے، جڑتے جڑتے کشتی کی صورت ہو گئی،میں نے کہا یا اللہ! یہ کس طرح سے کشتی بن گئی، آخر انہیں کون جوڑ رہا ہے کہ اوپر نیچے خود بخود تختے لگے چلے جا رہے ہیں۔ابھی میں اسی حیرت میں تھا کہ دریا کے اندر سے لوہے قیتل کی کیلیں نکلنی شروع ہو گئیں اور خود بخود اس کے اندر ٹھکنے لگیں اور جڑجڑا کے بہترین قسم کی کشتی بن گئی۔میں حیرت میں کہ یہ کیا ماجرا ہے، یہ تختے جو جڑے ہوئے تھے، ان کی درجوں سے پانی اندر گھس رہا تھا کہ دریا کے اندر سے خود بخود ایک روغن نکلنا شروع ہوا اور ان درجوں میں وہ بھرنا شروع ہوا جس سے پانی اندر گھسنا بند ہو گیا۔ابھی میں اسی حیرت میں تھا کہ وہ کشتی خود بخود میری طرف بڑھنی شروع ہوئی اور کنارے پر آ کر ایسے جھک گئی، گویا مجھے سوار کرانا چاہتی ہے، میں بھی بیٹھ گیا، وہ خو بخود چلی اور مجھے لے کر روانہ ہوگئی، دریا کی دھار پر پہنچی، پانی ادھر کو جا رہا تھا کشتی خود بخود ادھر کو جا رہی تھی، کیونکہ شاہی محلات ادھر کو تھے.میں حیران تھا کہ یا اللہ! آخر پانی کے بہاؤ کے خلاف کون اسے لے جا رہا ہے؟یہاں تک کہ شاہی محل کے قریب کنارے پر پہنچ گئی اور آخر جھک کر پھر کنارے پر کھڑی ہو گئی کہ میں اتر جاؤں تو میں اتر گیا، پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ کشتی غائب بھی ہو گئی، گھنٹہ بھر اس کنارے اور گھنٹہ بھر اس کنارے سوچتا رہا کہ یہ کیا قصہ تھا؟ یہ سانحہ جس کی وجہ سے تحیر میں کئی گھنٹے لگ گئے، اب تک سمجھ میں نہیں آیا، کیا ماجرا تھا؟اور میں امیرالمومنین سے معافی چاہتا ہوں کہ آٹھ بجے بلایاگیااور ایک بجے پہنچا ہوں۔‘‘

دہریے نے کہا: امام صاحب! میں نے تو یہ سنا تھا کہ آپ بڑے عالم ہیں، بڑے دانش مند اور فاضل مند آدمی ہیں مگر بچوں کی سی باتیں کر رہے ہیں، بھلا یہ ممکن ہے کہ پانی میں سے خود بخود تختے نکل آئیں، خود ہی جڑنے لگیں، خود ہی کیلیں ٹھک جائیں،خود ہی روغن لگ جائے، خود آ کے کشتی اپنے آپ کو جھکا دے، آپ اس پر بیٹھ جائیں اور خود ہی لے کے چل دے، خود ہی وہ کنارے پر پہنچا دے، یہ کوئی عقل میں آنے والی بات ہے؟میں نے سمجھا تھا کہ آپ بڑے دانش مند، فاضل اور عالم ہیں، امام آپ کا لقب ہے اورباتیں کر رہے ہیں آپ نادانوں اوربچوں جیسی؟یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی کشتی بنانے والا نہیں، خود بخود بن گئی، کوئی کیلیں ٹھونکنے والا نہیں، خود بخود ٹھک گئیں، کوئی روغن بھرنے والا نہیں، خود ہی بھر گیا، کوئی چلانے والا ملاح نہیں، خود ہی چل پڑی، کوئی سمجھانے والا نہیں، خود ہی سمجھ گئی کہ مجھے شاہی محل کے اوپر جانا ہے،یہ عقل میں آنے والی بات ہے؟

امام صاحبؒ نے فرمایا:’’ اچھا یہ بات نادانی اور بے وقوفی کی ہے؟‘‘اس نے کہا: جی ہاں!فرمایا: ’’ ایک کشتی بغیر بنانے والے کے بن نہ سکے، بغیر چلانے والے کے چل نہ سکے، بغیر کیلیں ٹھونکنے والے کے اس کی کیلیں ٹھک نہ سکیں اور یہ اتنا بڑا جہان جس کی چھت آسمان ہے، جس کا فرش زمین ہے، جس کی فضا میں لاکھوں جانور ہیں، یہ خود بخود بن گیا، خود ہی چل رہا ہے، سورج بھی، چاند بھی، خود ہی چل رہے ہیں،یہ کوئی عقل میں آنے والی بات ہے؟ایک معمولی کشتی جسے انسان بنا سکتاہے، یہ تو بغیر بنانے والے کے نہ بنے اور اتنا بڑا جہان ہو، انسان کے بس میں ہے وہ خود بخود بن جائے، تو تمہاری عقل بچوں جیسی ہے یا میری عقل بچوں جیسی؟. میں نادان ہوں یا تم نادان ہو؟‘‘

مناظرہ ختم ہو گیا اور بحث تمام ہوگئی اوردہریہ اپنا سا منہ لے کر واپس ہو گیا، اب کیا بحث کرے، جو اس کی بنیاد تھی وہ ساری کی ساری ختم ہو گئی۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔)

اپنا تبصرہ بھیجیں