وسعتِ ظرفی یا احسان فراموشی

دینی مدارس سے فراغت پانے والے طلبہ جب کالج یونی ورسٹی یا دیگر پبلک اداروں میں کام کرنے کے میدانِ انتخاب کا رخ کرتے ہیں تو ان کے رویوں میں مختلف تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جن میں سے بعض مثبت ہوتی ہیں اور بعض منفی۔منفی تبدیلیوں میں سے ایک تبدیلی ان اداروں کی احسان فراموشی ہے۔ایک مدرسے کا فاضل جب کہیں علومِ اسلامیہ کا استاد مقرر ہوتا ہے یا اسی علم کی استعداد کی بنیاد پر اس کے لیے کوئی اور راہ ہم وار ہوتی ہے تو ظاہر ہے اس میں سب سے بنیادی احسان اس پر مدرسے کا ہے جس میں تعلیم کی بدولت اس میں نہ صرف علمی استعداد حاصل ہوئی بلکہ پورے آٹھ سال ( اور بعض صورتوں میں زیادہ) وہ اس کی مادی ضرورتوں کا کفیل بھی رہا ہے۔مدرسہ لاکھ کم زوریوں کا حامل سہی، لیکن اس کے افادی پہلو سے انکار صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب محاسن کو دیکھنے کے بجائے صرف اور صرف کم زوریوں پر نظر ہو۔ مدارس کی احسان فراموشی کا ایک مظہر یہ ہے کہ بعض لوگ باہر والوں کے لیے تو بڑی وسعتِ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہیں، انھیں احترام دیتے ہیں ، ان کے لیے آداب اور اخلاق کا دروازہ کھلا رکھنے کی دعوت دیتے ہیں (اور ان میں سے کسی ایک بات کے اچھا ہونے کا انکار بھی ممکن نہیں) لیکن یہی لوگ اس وسعتِ ظرفی اور اخلاق کا مدارس کے لیے استحقاق بھول جاتے ہیں اور یوں اپنے عمل میں واضح طور پر ایک دوغلے پن کو راہ دے دیتے ہیں۔وہ کیسا اخلاق ہے جو محسن کُش ہو، لیکن غیروں کے لیے اس کی راہیں کشادہ ہوں، اس وسعتِ ظرفی کا کیا کیجیے کہ جس محسن نے آپ کا ہاتھ اس وقت تھاما تھا جب آپ قمیص کی آستین سے ناک صاف فرمایا کرتے تھے، لیکن آج آپ کو واسکٹ پہننے کی توفیق ملی ہے تو وہی محسن آپ کی نظر میں راندۂ درگاہ ہو چکا ہے۔انسانیت کو بھی محبت دیجیے اور پورے طور پر دیجیے، وسیع الظرف بھی کہلائیے لیکن مُحسن کشی کی قیمت پر نہیں، یہ اللہ کے ہاں بھی ناپسندیدہ فعل ہے اور بندوں کے ہاں بھی !!! مدارس کی کمیوں پر تنقید بھی ضرور کیجیے کیوں کہ یہ معصوم انسانوں کے ادارے نہیں، لیکن اسی اخلاق کے ساتھ جس کا اظہار آپ نے دوسروں کے سامنے کر کے تنگ نظری کی تہمت سے خلاصی پائی ہے۔

 
 
 

اپنا تبصرہ بھیجیں