زبردستی ہونے تک

تحریر: ڈاکٹرعبدالقدیر خان

 پچھلے دنوں سندھ اسمبلی نے ایک قانون پاس کیاہے جس کی رو سے 18سال سے کم افراد کو زبردستی تبدیلی مذہب ایک جرم قراردیا گیا ہے۔قانون تو اچھا ہے لیکن 18 سال کی عمر کا تعین کرنا ناقابل فہم ہے۔یورپ میں (جس کی ہماری ذہنیت غلام ہے ) 12 سال سے  لیکر 15سال تک کے بچوں کو اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ٹھہرایاجاتا ہے ۔ اس قانون کے چند اہم نکات آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ۔

  • جبری تبدیلی مذہب ایک قابل نفرت اور  پر تشدد جرم ہے۔ یہ مسئلہ سندھ میں عام ہوچکا ہے جہاں زیادہ تر ایسے واقعات وقتاً فوقتاً سامنے آتے ہیں۔
  • جبری تبدیلی مذہب کو جرم قررادینا اور اس قابل نفرت عمل کے شکار  لوگوں کو تحفظ فراہم کرنا ضروری ہے ۔
  • عدالت پہلی سماعت  کی تاریخ طے کرے  گی  جو کہ  پٹیشن کی تاریخ وصولی سے سات دن  سے زیادہ نہ ہوگی ۔
  • متاثرہ فرد کو سماعت  کی مدت کے دورن کسی دارالامان  کی  نگرانی میں عارضی طور پر دیا جائے گا ۔
  • ایسا کوئی بھی شخص جو متاثرہ فرد کی جگہ  کے بارے میں بتلائے گاوہ توہین  عدالت کی سزا کا مستحق ہوگا۔
  • کسی بھی  فرد کے  بارے میں یہ نہیں سمجھا جائے گا کہ اس  نے  اپنا مذہب تبدیل کرلیا ہے جب تک   کہ وہ 18سال  کا نہ ہو ۔

آپ دیکھتے  ہیں یہ شرائط  کلام الٰہی  اور فرمودات  رسول اللہ ﷺ سے مطابقت نہیں رکھتیں ۔ میں آپ  کو اس کی تشریح  کر کے بتاتا ہوں ۔ یہ تاثرات  پروفیسر ڈاکٹر  محمدا لغزالی ، عطاء اللہ خان اور مفتی رشید احمد خورشید صاحب سے گفتگو کے بعد  پیدا ہوئے ہیں ۔دراصل یہ کام  اسلامی نظریاتی کونسل کا  ہے  وہ فورا اس غیرشرعی  قانون کے  خلاف آواز بلند کریں ۔ دیکھئے اللہ تعالیٰ  نے کیا فرمایا ہے ۔

  • اور جب تمہارے لڑکے سن بلوغت کو پہنچ جائیں  تو چاہیے کہ  وہ  بھی ( گھر میں داخل ہونے  کے لیے ) اجازت طلب کیا کریں  ” (سورۃ النور آیت 59)
  • بلاشبہ آسمان اور زمین کے پیدا  کرنے میں ان لوگوں  کے لیے بہت سی  نشانیاں ہیں  جو عقل رکھتے ہیں  ” ( سورۃ آل عمران  آیت  190)

اسی طرح کا مضمون  قرآن کی متعددآیات میں موجود  ہے اور ان میں سمجھ بوجھ  رکھنے والوں کے لیے  اللہ نے  کائنات  میں غور  کر کے اللہ  کی توحید سمجھنے  کی ترغیب  اوردعوت دی ہے ۔

  • ” اور اللہ سلامتی کے گھر کی طرف  بلاتا ہے  اور جس کو چاہتا ہے  سیدھی راہ کی طرف اس  کی رہنمائی کرتا ہے ” ( سورۃ یونس آیت 25)

اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنے بندوں  کو دارالسلام کی طرف  دعوت  دی ہے اور اس  کا واحد راستہ اسلام  کو بنایا ہے  تو سمجھدار بچے  کو اللہ کی دعوت  قبول کرنے سے روکنا کسی  طرح  جائز  نہیں۔

  • جس نے کہا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ جنت میں داخل ہوگیا۔ (  بخارہ ومسلم )  یہ حدیث عام  ہے اور اس میں بچہ بھی  شامل ہے ۔
  • پیدا ہونے والا ہر ایک بچہ اپنی فطرت پر پیدا ہوتاہے ( بخاری ومسلم )
  • نبی کریم ﷺ نے ایک یہودی بچے اسلام کی دعوت  دی اور اس اس نے اسلام قبول کرلیا اور پھر رسول اللہ ﷺ نے اس  پر اللہ کی حمدوثنا کی ( بخاری ، حدیث 1290)

اسلام ایک عبادت ہے تو جس طرح   دوسری عبادت  مثلا روزہ، نماز، حج ، عاقل  سمجھدار  بچے کی درست ہے  تو اس کا اسلام لانا بھی درست ہے  اور جس طرح  اس کی دوسری عبادات کو رد نہیں کیا جاسکتا اسی طرح  اس کے اسلام  قبول کرنے سے بھی نہیں روکا جاسکتا۔

آئیے آپ کو چند اور حقیقی واقعات  بتلاتا ہوں :

 حضرت  عمیر بن سعد  رضی اللہ عنہ نوسال کے تھے کہ آپ کے سینے  میں ایمان کی شمع جگمگ  جگمگ  کر گئی ۔ ان کے والد کا نام “جلاس ” تھا جو بہت سخت رویہ رکھتے  تھے  اور اسلام کے شدید مخالفین  میں سے تھے ۔ ان کے بیٹے حضرت عمیر رضی اللہ عنہ ابھی بچے تھے  کہ اسلام کا نور ان کے دل میں داخل ہوکر اندر  کے جہاں کو آباد کرگیا۔ اسلام کی حلاوت وتراوٹ ان کے کانوں میں رس گھولتے ہوئے  دل ودماغ  میں گاگزیں ہو کر روح ودل  پر اثر کرچکی تھی ۔ والد نے بہت سختی کی   منع کیا ۔ ڈانٹا  ڈرایا اور دھمکایا۔ حضرت عمیر نے حضور اکرم ﷺ کو آکر یہ اطلاع بھی دے دی کہ میرے والد نے آپ کے بارے میں نازیبا  کلمات ادا کیے ہیں۔ حضورﷺ نے طلب کیا تو انکار  کرنے لگے ۔ پھر اسی سلسلے میں قرآن کریم کی یہ آیت يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ مَا َالُوا وَلَقَدْ قَالُوا كَلِمَةَ الْكُفْرِ ۔ نازل ہوئی۔ روایات  کے مطابق بعد میں یہ بھی توبہ  تائب ہوکر مسلمان ہوگئے تھے ۔ ( سیرۃ ابن ہشام  ج 3 ص 53 مکتبہ دارلجیل بیروت )

 حضرت عمیر  بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کتنی کم  عمری میں  اسلام قبول کیا ہوگا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے  کہ سولہ سال کی عمر میں آپ میدان بدر میں جام شہادت  نوش کرتےہیں۔ یہ حضرت  سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے چھوٹے بھائی تھے ۔ فرماتے ہیں کہ جب میدان بدر کے لیے  شرکاء انتخاب  کیاجارہاتھا تو یہ بار بار کبھی  کسی کی اوٹ میں  چھپ جاتے   تو کبھی کسی کے پیچھے   کھڑے  ہوجاتے  ۔ پوچھنے پر  فرمانے لگے  کہ میں اس لیے  ادھر ادھر چھپتا  پھر رہا ہوں  کہ  کہیں  حضورﷺ مجھے کم عمر اور چھوٹا  سمجھ کر واپس نہ کردیں ۔چنانچہ  حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ بدر میں شریک ہوئے اور ان کے تلوار  کی نیام میں نے باندھ  کردی کہ یہ بہت  چھوٹے  ہونے کی وجہ سے  خود نہیں باندھ سکتے  تھے ۔ یوں  شریک ہوئے اورشہادت کے مرتبے سے سرفراز ہوئے  ( الاصاب فی تمیز  الصحاب  ج 4ص725 بیروت)

حضرت عبدالرحمان بن عوف  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ  میدان بدر میں جب جنگ  شروع ہوئی  میں نے  اپنے دونوں جانب دیکھا تو دونوں جانب  دو بچے  کھڑے تھے ۔ میں دل ہی دل میں سوچنے لگا  کہ اگر کوئی طاقتور نوجوان میرے آس پاس ہوتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ اتنے میں  ان میں سے ایک بچے نے  پوچھا  کہ  ہمیں بتائیے کہ ان لوگوں میں سے  ابو جہل کون سا ہے ؟  

حضرت عبدالرحمان بن عوف فر ماتے ہیں  کہ مجھے   حیرت بھی تھی  کہ یہ بچے کیوں پوچھ رہے ہیں ۔ لیکن  ابو جہل سامنے آیا  تو میں نے ان کو بتایا کہ تمہارا مطلوبہ شخص۔

 فرماتے ہیں کہ میرا  بتانا  تھا کہ  اتنے میں ایک بچہ لپکا اور  اور اس کی ٹانگ پر وار  کر کے  اس کو گرایا اوردوسرے نے جھپٹ کر  اس کا کام  تمام کردیا ۔ اس کے علاوہ حضرت زید بن  ثابت، حضرت رافع ابن خدیج ، حضرت سمرا بن جندب  ، حضرت عبداللہ بن عامر بن ربیعہ ، حضرت ثعلبہ ابن  عبدالرحمان ، حضرت انس  رضی اللہ عنھم اجمعین  اور دیگر کئی صحابہ نے کم  عمری میں  اسلام قبول کیا ۔ ( سیرا علام  النبلاء ج 2ص: 428 اور ج  3ص 181/397: بیروت)  اور حضور اکرم ﷺ ان کم عمر صحابہ کے ساتھ   خصوصی شفقت اور محبت کا معاملہ  فرمایا کرتے تھے  اور کیوں نہ فرماتے  کہ حضورﷺ کی بعثت  کا مقصد  اور نزول  وحی کی واحد غرض یہی  تھی  کہ لوگوں کو دین کی  دعوت دی جائے ۔ حضورﷺ نے اپنی ساری  زندگی اسی مقصد اسی مشن،  اسی نظریے  اوراسی وژن کو سامنے رکھتے  ہوئے  بسر کی ۔ آپ تو ہر وقت اسی غم میں  پریشان  وفکر مند رہتے  تھے کہ  کس طرح زیادہ  سے زیادہ لوگ اسلام  میں  داخل ہوجائیں ۔ا س قدر فکر مندی  کہ قرآن  میں اللہ تعالیٰ نے آیات نازل  فرماکر  تنبیہ فرمائی   کہ اس قدر غم  اور فکرآپ کرتے ہیں  کہ اپنی جان  کو ہی خطرے میں  ڈال دیتے ہیں ۔اتنا  غم   اور اتنی کڑھن ، اتنا درد اور اتنی فکر ، اتنا اضطراب  اور اتنی بے چینی  صرف ا س بات  کی کہ لوگ  اسلام  میں  داخل ہوجائیں ۔

 یہ تو چند صحابہ کا ہم نے بطور نمونہ ذکر کیا۔  یہ فہرست  تو کافی  طویل ہے  ۔ا س سے ہٹ کر اگرہم حضور اکرم ﷺ کی اس مبارک حدیث پرغور کریں  جس کو امام بخاری  اور امام مسلم  دونوں نے اپنی صحیحین  ( صحیح بخاری  : حدیث نمبر :1292 ۔ صحیح مسلم  حدیث 2658 ) میں نقل کیا ہے  ۔

حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” ہر بچہ  فطرت اسلام   پر پیداہوتا ہے پھر اس کے والدین  اسے یہودی  بناتے ہیں نصرانی  بناتے ہیں  یا مجوسی  بناتے ہیں  جیسے ایک  جانور کا بچہ  صحیح سالم  پیدا ہوتا ہے ۔ کیا  تم  نے اس میں  کوئی ناک کٹا دیکھا ؟  “

اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  قرآن کریم  کی یہ آیت بھی پڑھتے  ہیں۔ ” فطر اللہ التی فطر الناس علیھاء لا تبدیل لخلق اللہ   ذلک الدین القیم ” یعنی  اس آیت  کو ذکر  کر کے  ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس بات کی وضاحت فرمائی کہ فطرت  سے مراد دین  فطرت  ہے اوردین اسلام ہے ۔

محدثین  نے اس حدیث کی تشریح  میں یہ بات لکھی ہے  کہ جب کوئی بچہ ایک  مسلمان  گھرانے  میں پیدا ہوتا ہے  تو یہ اس ماحول  کی وجہ سے مسلمان  نہیں ہوتا، بلکہ  اپنی اصل  فطرت  کی وجہ سے   مسلمان  رہتا ہے  کہ اللہ تعالیٰ نے  ہر انسان  اور ہر بچے فطرت میں جو مذہب  رکھا ہے وہ  مذہب اسلام ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حضور ﷺ نے  اس حدیث  شریف میں یہ نہیں فرمایا کہ : یا اسے مسلمان  بنا  دیتے ہیں”۔ اگر ماحول  کی وجہ سے  ہی مسلمان ہوتا تو حضور  یہ بھی ارشادفرما تے ۔اس سے معلوم  ہوتا ہے کہ مسلمان  ہونا یہ فطرت کا  تقاضا ہے ۔ہاں  اگر کوئی بچہ  غیر مسلم  گھرانے میں پیدا ہوتا ہے اور بڑا ہو کر  وہ غیر  مسلم  رہتا ہے تو اس کا سبب  اس حدیث کی روشنی  میں اس  کے والدین  اوراس کا گھرانہ  اور ماحول  ہے  چنانچہ  علم الاقوام کے ماہرین   (Ethnologists )   کا سالوں  کے مناظروں اورمباحثوں  کے بعد اس  بات پر اتفاق ہوچکاہے کہ انسانیت کا پہلا دین  توحید ہے۔ یہ وہ  زمینی حقیقت  ہے جس کا مسلم تومسلم  کافر بھی معترف ہیں۔

اس ساری تفصیل  سے یہ بات بالکل کھل  کر سامنے آجاتی   ہے کہ بچے  کو اسلام  قبول کرنے سےروکنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے   آپ اس کو دیکھنے سے روکیں ۔  جس  طرح  یہ ساری چیزیں اس کی  فطرت کا حصہ ہیں  بعینہ  اسی طرح بلکہ  اس سے بڑھ کر دین اسلام  اس کی فطرت  اور سرشت کا لازمی حصہ  اور جز ہے ۔ اگر کوئی شخص اپنے بچے  کو تعلیم  اس لیے نہ دلائے  کہ نہ  جانے یہ بڑا ہوکر   تعلیم حاصل کرنا  چاہتا ہے یا نہیں ؟پتا نہیں یہ ریاضی پڑھنا چاہتا ہے  یا نہیں ؟

اگر کوئی شخص اس بنیاد پر  اپنے بچے کو تعلیم سے ناآشنا رکھے  تو اس کے بارے میں  آپ کی کیا رائے ہوگی ؟ توکیا دین سے دور رکھنا اور بے دین  بنانے میں کو ہم اس سے بھی کم درجے  کی چیز سمجھ  بیٹھے ہیں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں