اعمال کا وزن ہوگا یا گنتی؟

سوال : قیامت کے دن نیکیوں کا حساب گنتی کے اعتبار سے ہو گا یا وزن کے اعتبار سے ؟
الجواب باسم ملھم الصواب
قرآن اور حدیث کی بہت سی نصوص سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اعمال میں تعداد سے زیادہ اہمیت وزن کو حاصل ہوگی،لیکن بعض مقامات پہ تعداد بھی مطلوب ہے
جیسا کہ احادیث مبارکہ میں درود شریف اور کثرت استغفار کی فضیلت آئی ہے البتہ تعداد کے ساتھ ساتھ معیار کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے۔

=================
حوالہ جات :
1 ۔ ”الْوَزْنُ یَوْمَئذِ ن ﹰالْحَق فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓئكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ“۔
(الاعراف : 8)۔
ترجمہ : ”اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے“۔

2 ۔” ونضع الموازین القسط لیوم القیامۃ فلا تظلم نفس شیئا و ان کان مثقال حبۃ من خردل اتینا بہا و کفی بنا حاسبین “۔(الانبیاء : 47)۔
ترجمہ
”اور قیامت کے دن ہم انصاف کی میزان رکھیں گے سو جن کی میزان کے (نیکی کے) پلڑے بھاری ہوئے وہی فلاح پانے والے ہوں گے۔ اور جن کی میزان کے (نیکی کے) پلڑے ہلکے ہوئے تو یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کو نقصان میں ڈالا، اور وہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔ 
———————-

3 ۔ عَنْ جُوَيْرِيَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهَا بُكْرَةً حِينَ صَلَّى الصُّبْحَ وَهِيَ فِي مَسْجِدِهَا ثُمَّ رَجَعَ بَعْدَ أَنْ أَضْحَى وَهِيَ جَالِسَةٌ فَقَالَ مَا زِلْتِ عَلَى الْحَالِ الَّتِي فَارَقْتُكِ عَلَيْهَا قَالَتْ نَعَمْ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَدْ قُلْتُ بَعْدَكِ أَرْبَعَ كَلِمَاتٍ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ لَوْ وُزِنَتْ بِمَا قُلْتِ مُنْذُ الْيَوْمِ لَوَزَنَتْهُنَّ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ عَدَدَ خَلْقِهِ وَرِضَا نَفْسِهِ وَزِنَةَ عَرْشِهِ وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ“ ۔
( صحیح للمسلم : ​6913 . )۔
ترجمہ
سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز پڑھنے کے بعد صبح سویرے ان کے ہاں سے باہر تشریف لے گئے، اس وقت وہ اپنی نماز پڑھنے والی جگہ میں تھیں، پھر دن چڑھنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس واپس تشریف لائے تو وہ (اسی طرح) بیٹھی ہوئی تھیں۔ آپ نے فرمایا: “تم اب تک اسی حالت میں بیٹھی ہوئی ہو جس پر میں تمہیں چھوڑ کر گیا تھا؟” انہوں نے عرض کی: جی ہاں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “تمہارے (ہاں سے جانے کے) بعد میں نے چار کلمے تین بار کہے ہیں، اگر ان کو ان کے ساتھ تولا جائے جو تم نے آج کے دن اب تک کہا ہے تو یہ ان سے وزن میں بڑھ جائیں: “​

4 ۔ ” عن ابی ھریرة رضي الله عنه، قال قال النبي صلى الله عليه وسلم:” كلمتان حبيبتان إلى الرحمن خفيفتان على اللسان، ثقيلتان في الميزان، سبحان الله وبحمده، سبحان الله العظيم“۔
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”دو کلمے ایسے ہیں جو اللہ تبارک و تعالیٰ کو بہت ہی پسند ہیں جو زبان پر ہلکے ہیں اور قیامت کے دن اعمال کے ترازو میں بوجھل اور باوزن ہوں گے، وہ کلمات مبارکہ یہ ہیں «سبحان الله وبحمده،‏‏‏‏ سبحان الله العظيم» ۔

5 ۔ قال النبي صلى الله عليه وسلم:” طوبى لمن وجد في صحيفته استغفارا كثيرا”. (سنن ابن ماجہ : 3818)۔
ترجمہ : ” نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مبارکبادی ہے اس شخص کے لیے جو اپنے صحیفہ (نامہ اعمال) میں کثرت سے استغفار پائے“۔

6 ۔ ” قال ابي: قلت: يا رسول الله , إني اكثر الصلاة عليك فكم اجعل لك من صلاتي؟ فقال: ” ما شئت “، قال: قلت: الربع؟ قال: ”ما شئت فإن زدت فهو خير لك “ , قلت: النصف؟ قال:” ما شئت فإن زدت فهو خير لك “ , قال: قلت: فالثلثين؟ قال: ”ما شئت فإن زدت فهو خير لك ” , قلت: اجعل لك صلاتي كلها , قال: ” إذا تكفى همك ويغفر لك ذنبك “
(سنن الترمذی: 2457 )۔
ترجمہ : حضرت ابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں آپ پر بہت صلاۃ (درود) پڑھا کرتا ہوں سو اپنے وظیفے میں آپ پر درود پڑھنے کے لیے کتنا وقت مقرر کر لوں؟ آپ نے فرمایا: ”جتنا تم چاہو“، میں نے عرض کیا چوتھائی؟ آپ نے فرمایا: ”جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے“، میں نے عرض کیا: آدھا؟ آپ نے فرمایا: ”جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے، میں نے عرض کیا دو تہائی؟“ آپ نے فرمایا: ”جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے، میں نے عرض کیا: وظیفے میں پوری رات آپ پر درود پڑھا کروں؟۔ آپ نے فرمایا: ”اب یہ درود تمہارے سب غموں کے لیے کافی ہو گا اور اس سے تمہارے گناہ بخش دیئے جائیں گے“۔

——————
7 : ونضع الموازین کی تفسیر میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
” موازین میزان کی جمع ہے ،جو ترازو کے معنی میں آتا ہے، اس لیے بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ وزن اعمال کے لیے بہت سی ترازو رکھی جائیں گی خواہ ہر شخص کے لیے الگ الگ میزان ہو یا خاص خاص اعمال کے لیے الگ الگ میزان ہوں، لیکن جمہور علماء اس بات پر متفق ہیں کہ میزان ایک ہی ہوگی اس کو بصیغہء جمع اس لیے تعبیر کیا کہ وہ بہت سی میزانوں کا کام دے گی“ ۔
(معارف القرآن: 190 /6)۔

واللہ اعلم بالصواب۔
17 جمادی الاولی 1444
11 دسمبر 2022۔

اپنا تبصرہ بھیجیں