عدالتی نکاح کی شرعی حیثیت

فتویٰ نمبر:707

سوال:ﺟﻮ ﻟﮍﮐﺎ -ﻟﮍﮐﯽ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺑﮭﺎﮒ ﮐﺮ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮﺗﮯ ﮨیں ﺍﺳﮑﯽ ﮐﯿﺎ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﮨﮯ۔
عدالتی نکاح کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
تفصیلی جواب درکار ہے؟

الجواب حامداً و مصليا

شرعاًاولاد کو اپنے ولی کی سرپرستی میں نکاح کی ترغیب دی گئی ہے ،اور ولی کی رضامندی کے بغیر کورٹ میرج یا خفیہ طور پر نکاح کرنا عُرفاً شرم وحیا کے بھی خلاف ہے ، اور کئی آئمہ کرام کے مذہب کے بھی خلاف ہے،اس لئے اولا اس کی حوصلہ افزائی کسی بھی طرح جائز نہیں ہے۔

البتہ اس کے باوجوداگرکوئی لڑکی بالغہ ہو اور باقاعدہ ایجاب و قبول کے ساتھ کم از کم دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرلےاور نکاح بھی کفؤ میں اورمہرِ مثل کے ساتھ ہوا ہو تو شرعاً یہ نکاح احناف کے نزدیک منعقد ہوجائے گااور والدین کو یہ نکاح فسخ کرنے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔

اور اگر یہ نکاح مہرِ مثل سے کم پر ہوا ہے تو لڑکی کے اولیاء کو اعتراض کا حق حاصل ہے یہاں تک کہ شوہر مہر کو مہرِ مثل کے برابر کردیے ،ورنہ عدالت کے ذریعے اولیاء اس نکاح کو فسخ کرواسکتے ہیں۔

اور اگر لڑکا اس لڑکی کا کفؤ ( ہم پلّہ ) نہیں یا انہوں نے ایجاب و قبول کم از کم دو گواہوں کی موجودگی میں نہیں کیا تھا تو شرعاً یہ نکاح منعقد نہیں ہوا۔

===================
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (3 / 84)
حَاصِلَهُ: أَنَّ الْمَرْأَةَ إذَا زَوَّجَتْ نَفْسَهَا مِنْ كُفْءٍ لَزِمَ عَلَى الْأَوْلِيَاءِ وَإِنْ زَوَّجَتْ مِنْ غَيْرِ كُفْءٍ لَا يَلْزَمُ أَوْ لَا يَصِحُّ بِخِلَافِ جَانِبِ الرَّجُلِ فَإِنَّهُ إذَا تَزَوَّجَ بِنَفْسِهِ مُكَافِئَةً لَهُ أَوْ لَا فَإِنَّهُ صَحِيحٌ لَازِم،
===================
الدر المختار- (3 / 55)
(وَلَا تُجْبَرُ الْبَالِغَةُ الْبِكْرُ عَلَى النِّكَاحِ) لِانْقِطَاعِ الْوِلَايَةِ بِالْبُلُوغِ (فَإِنْ اسْتَأْذَنَهَا هُوَ) أَيْ الْوَلِيُّ وَهُوَ السُّنَّة،
===================
الهداية في شرح بداية المبتدي – (1 / 196)
” وإذا تزوجت المرأة ونقصت عن مهر مثلها فللأولياء الاعتراض عليها ” عند أبي حنيفة رحمه الله ” حتى يتم لها مهر مثلها أو يفارقها ” وقالا ليس لهم ذلك وهذا الوضع إنما يصح على قول محمد رحمه الله على اعتبار قوله المرجوع إليه في النكاح بغير الولي وقد صح ذلك، وهذه شهادة صادقة عليه لهما أن ما زاد على العشرة حقها ومن أسقط حقه لا يعترض عليه كما بعد التسمية ولأبي حنيفة رحمه الله أن الأولياء يفتخرون بغلاء المهر ويتعيرون بنقصانه بأشبه الكفاءة بخلاف الإبراء بعد التسمية لأنه لا يتعير به.
===================
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (3 / 55)
(قَوْلُهُ وِلَايَةُ نَدْبٍ) أَيْ يُسْتَحَبُّ لِلْمَرْأَةِ تَفْوِيضُ أَمْرِهَا إلَى وَلِيِّهَا كَيْ لَا تُنْسَبَ إلَى الْوَقَاحَةِ بَحْرٌ وَلِلْخُرُوجِ مِنْ خِلَافِ الشَّافِعِيِّ فِي الْبِكْرِ، وَهَذِهِ فِي الْحَقِيقَةِ وَلَايَةُ وَكَالَة
===================
والله تعالى أعلم بالصواب
محمدعاصم عصمہ اللہ

 
 
 
 

اپنا تبصرہ بھیجیں