اگرایک شخص قربانی نہ کرےاوراس کےبدلے زلزلہ زدگان میں پیسےتقسیم کرےتواس سےقربانی کاثواب ملےگایانہیں

سوال:حضرت جناب مفتی صاحب   السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

  خدمت ِعالیہ میں گزارش یہ  ہےکہ کیافرماتےہیں علمائےکرام اس مسئلےکے بارے میں کہ ایک شخص  یہ سمجھ کرقربانی نہیں کرتاکہ قربانی توبہت سےلوگ کرتےہیں اوروہ اپنی قربانی کےپیسےاس حال میں کہ اس پرقربانی واجب ہےکسی ریلیف فنڈ میں دےدیتاہےجیسا کہ آج کل “سونامی ” نامی طوفان کےمتاثرین کی امداد کیلئےامدادی کیمپ لگائےہوئےہیں اور رقم اس امدادی کیمپ میں دینےکےبعدیہ بھی گمان کرتاہےکہ اس پرجوقربانی واجب تھی وہ ختم  ہوگئی کیونکہ یہ رقم جوامدادی کیمپ میں  دی گئی ہےیہ بھی  اللہ  ہی کی راہ میں دیجاتی ہے تو کیااس شخص کایہ گمان اورجودلیل اس نے دی ہےیہ صحیح ہےیانہیں؟ اوراس شخص کی قربانی  ہوجائےگی یانہیں ؟ برائےکرم اس مسئلہ کےبارےمیں ہماری راہنمائی  کریں ؟

فتویٰ نمبر:148

الجواب حامداومصلیاً

 واضح رہےکہ شریعت ِ مقدسہ کےمسائل کسی فرد یاجماعت یاتنظیم  کی انفرادی یا اجتماعی عقل ،فہم  کے پابند  نہیں ہیں شریعت ِ مطہرہ کےاحکام کی بابت کسی کےدماغ میں کوئی حکمت اوروجہ ِ عقلی آجائے تو بھی اس کاحکم اسی طرح رہتاہےاوراگرکسی کےدماغ میں اسکی وجہ نہ آئےتوبھی اس کاحکم وہ ہی رہتاہے،نہ کسی کےادراک سےاس کی اہمیت بڑھتی ہے نہ کسی کی کج فہمی اس کی حیثیت کم کرسکتی ہے۔

عیدالاضحیٰ کےموقع پرجانوروں کی قربانی بھی منجملہ ان ہی احکام  میں سےایک ہےکہ جس کاحکم شریعت ِ مطہرہ کی طرف سےمسلمان بندوں کودیاگیاہےاوراس کواسی طرح حکم دیاگیاہےکہ شریعت کےمقررہ  جانوروں  کوشرعی طریقہ کےمطابق ذبح کیاجائے شریعت کےاس حکم کوکسی اور کارخیرسے بدل دینایااس حکم کی مصالح  تلاش کرکےان مصالح کو مقصودبناکران مصالح کےدوسرےمصارف کی جستجو کرکےاس کواس قربانی کانعم البدل قرار دیناشرعاًدرست نہیں ہے (۱)

حدیث شریف میں واضح الفاظ میں وارد ہےکہ اس دن اللہ تعالیٰ شانہ  کوقربانی اورجانورکےخون بہانےسےزیادہ کوئی عمل پسند نہیں ہے۔

چنانچہ ارشاد نبوی ہے:

     مشكاة المصابيح الناشر : المكتب الإسلامي بيروت (1 / 330)

” ما عمل ابن آدم من عمل يوم النحر أحب إلى الله من إهراق الدم وإنه ليؤتى يوم القيامة بقرونها وأشعارها وأظلافها وإن الدم ليقع من الله بمكان قبل أن يقع بالأرض فيطيبوا بها نفسا ” .

 مزید برآں موجود ہ زمانہ کااگرچودہ سوسال قبل کی مادیت سےموازنہ کیاجائےتونبی اکرم ﷺ کی حیات طیبہ میں اورآپ کےدنیاسےپردہ فرمانےکےبعدخیرالقرون میں  پسماندگی اورضرورت واحتیاج کاجوتناسب تھاکیاآج بھی اسی قدرہے؟

            اگرایسانہیں اورہرگزنہیں توکیاوہ زمانہ اوروہ حضرات اس بات کےزیادہ احق نہ تھےکہ قربانی کےبدلہ کسی ریلیف فنڈ کوقائم کرکےاس میں لوگوں کی مالی معاونت کرتے شریعت ِ مقدّسہ نےصرف قربانی کوواجب یازکوٰۃ کوہی فرض قرارنہیں دیابلکہ نفلی صدقات اورعطیات اورانکےذریعہ بھی غریب  پروری کادرس دیاہےاوراس کیلئےبھی علیحدہ فضائل بیان فرمائےہیں آج الحمدللہ مسلمان قوم کی مجموعی مالی حیثیت اس قدرہےکہ وہ اپنےفرائض و واجبات کی ادائیگی کےبعدنفلی صدقات وعطیات سےدیگرمسلمانانِ عالم کی مدد کریں تو انکے توحالات سنورہی جائیں گےان خرچ کرنےوالوں کی اپنی  جیب بھی متاثر نہ ہوگی ۔

الحاصل اگرکسی صاحب کوسونامی یاکسی اورریلیف فنڈ میں اپنےحصہ سےمعاونت کا جذبہ اورشوق ہےتوبلاشبہ ویقیناًقابل ِ ستائش اورلائق تحسین ہے،لیکن اس  کیلئےاللہ جل ّ شانہ کےفرض  کردہ احکام کوبدلنایانبی کریم ﷺ کی بتائی ہوئی  تعلیمات کواپنی نامکمل عقل کے بھینٹ چڑھادینابھی لائق ملامت اورقابل  مذمت وسرزنش ہے لہذا جن صاحب نےاپنی

قربانی کی رقم سونامی یاکسی اورریلیف فنڈ میں دیدی  ہےانکےاس عمل سےان کی واجب الاداء

قربانی انکےذمہ سےساقط نہیں ہوئی بلکہ اس پرقربانی کےایام میں شرعی ضابطوں کوپورا کرتے ہوئےبدستورواجب ہے

التخريج

(۱) بدائع الصنائع، دارالكتب العلمية – (5 / 66)

(وَمِنْهَا) أَنْ لَا يَقُومَ غَيْرُهَا مَقَامَهَا حَتَّى لَوْ تَصَدَّقَ بِعَيْنِ الشَّاةِ أَوْ قِيمَتِهَا فِي الْوَقْتِ لَا يَجْزِيهِ عَنْ الْأُضْحِيَّةَ؛ لِأَنَّ الْوُجُوبَ تَعَلَّقَ بِالْإِرَاقَةِ وَالْأَصْلُ أَنَّ الْوُجُوبَ إذَا تَعَلَّقَ بِفِعْلٍ مُعَيَّنٍ أَنَّهُ لَا يَقُومُ غَيْرُهُ مَقَامَهُ كَمَا فِي الصَّلَاةِ وَالصَّوْمِ وَغَيْرِهِمَا

الفتاوى الهندية – (5 / 293)

وَمِنْهَا أَنَّهُ لَا يَقُومُ غَيْرُهَا مَقَامَهَا فِي الْوَقْتِ، حَتَّى لَوْ تَصَدَّقَ بِعَيْنِ الشَّاةِ أَوْ قِيمَتِهَا فِي الْوَقْتِ لَا يُجْزِئُهُ عَنْ الْأُضْحِيَّةِ،

اپنا تبصرہ بھیجیں