استغفار کا کم ہونا بارش کے زیادہ نزول کا سبب حدیث کی تحقیق

سوال: قیامت کی ایک نشانی ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب میری امت میں سے أَسْتَغْفِرُاللّٰه کم ہو جائے گا تو بارش کا نزول زیادہ ہو جائے گاایک أَسْتَغْفِراللّٰه پڑھ کر سب کو سینڈ کر دو کچھ دیر بعد اربوں کھربوں ہو جائیں گے ان شاءاللّٰہ
اللہ اپنے تمام بندوں پر رحم فرمائے۔کیا یہ حدیث واقعہ ہے؟
الجواب باسم ملھم الصواب:
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبر کاتہ:
واضح رہے کہ ایسی کوئی حدیث وروایت جس میں بارش کی کثرت کا سبب استغفار کی کمی کو بتایا گیا ہو ہمیں نہیں مل سکی۔اس لیے جب تک ایسی کوئی بات جو حدیث سے نہ ملے اسے حدیث بنا کر آگے بیان کرنا جائز نہیں بلکہ گناہ ہے۔
البتہ فی نفسہ استغفار کا کم ہونا عذاب کا ذریعہ بنتا ہے اور کثرتِ استغفار عذاب کو روکنے کا سبب ہے۔ نیز بارش کا زیادہ برس جانا بھی بعض دفعہ تکلیفوں اور عذاب کا سبب بنتا ہے۔ اس لیے ایسی صورت حال میں استغفار کثرت سے کرنی چاہیے۔
قرآن وحدیث میں متعدد ایسی آیات وراویات ہیں جن میں بارش کے نزول کا سبب استغفار کو فرمایا گیا ہے۔
حوالہ جات:
1: فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا (10) يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا (11) وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَارًا (12)
ترجمہ:پس میں نے کہا اپنے رب سے بخشش مانگو بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے۔
وہ آسمان سے تم پر (موسلا دھار) مینہ برسائے گا
اور مال اور اولاد سے تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لیے باغ بنا دے گا اور تمہارے لیے نہریں بنا دے گا۔
2: وَيَا قَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُـمَّ تُوْبُـوٓا اِلَيْهِ يُـرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَيْكُمْ مِّدْرَارًا وَّيَزِدْكُمْ قُوَّةً اِلٰى قُوَّتِكُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِيْنَ (52)
اور اے قوم! اپنے رب سے معافی مانگو پھر اس کی طرف رجوع کرو وہ تم پر خوب بارشیں برسائے گا اور تمہاری قوت کو اور بڑھائے گا اور تم نافرمان ہو کر نہ پھر جاؤ۔
3: حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ: ارض کائنات میں دو امان دیئے گئے، زمین کے دو امان میں سے ایک تو اٹھالیا گیا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے اور دوسرا باقی رہ گیا اور وہ استغفار ہے، اس کو مضبوط پکڑلو (روح کی بیماریوں کا علاج، ص:۳۱)
4۔ حدثنا هشام بن عمار، حدثنا الوليد بن مسلم، حدثنا الحكم بن مصعب، حدثنا محمد بن علي بن عبد الله بن عباس، عن ابيه، انه حدثه، عن ابن عباس، انه حدثه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:” من لزم الاستغفار، جعل الله له من كل ضيق مخرجا، ومن كل هم فرجا، ورزقه من حيث لا يحتسب”.
ترجمہ: ”عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی استغفار کا التزام کر لے ۱؎ تو اللہ اس کے لیے ہر تنگی سے نکلنے اور ہر رنج سے نجات پانے کی راہ ہموار کر دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا، جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا“۔ ص: 1518
5۔ حسن بصری رحمة اللہ علیہ سے کسی نے قحط سالی کی شکایت کی ، یعنی بارش نہ ہونے کی، تو انہوں نے فرمایا: استغفار کرو، دوسرے نے تنگدستی کی شکایت کی،تو اس کو بھی فرمایاکہ : استغفار کرو، تیسرے آدمی نے اولاد نہ ہونی کی شکایت کی،تو اس کو بھی فرمایاکہ: استغفار کرو، چوتھے نے شکایت کی کہ پیداوار زمین میں کمی ہے،تو ان کو بھی فرمایاکہ: استغفار کرو، پس کہا گیا کہ آپ نے ہر شکایت کا ایک ہی علاج تجویز فرمایا ؟تو انہوں یہ آیت تلاوت فرمائی:
”استغفرو ربکم انہ کان غفاراً یرسل السماء علیکم مدراراً ویمدد کم باموال وبنین ویجعل لکم جنت ویجعل لکم انہارا۔“ (نوح:۱۰)
ترجمہ:۔ ”گناہ بخشواؤ اپنے رب سے بے شک وہ ہے، بخشنے والا، وہ کثرت سے تم پر بارش بھیجے گا اور تمہارے مال اور اولاد میں ترقی دے گا اور تمہارے لئے باغات بنادے گا اور تمہارے لئے نہریں جاری فرمادے گا۔“
( روح المعانی ج: 15،ص:81 )

فقط واللہ تعالی اعلم وعلمہ اتم
25اگست 2022ء
26 محرم الحرام 1444ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں