اذان کا جواب دینا

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! السلام علیکم و رحمة الله وبركا ته!کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ۱)اذان کا جواب دینے ، خاموشی سے سننے اور آخر میں دعا کی کیا فضیلت ہے؟

۲)جو لوگ دوران اذان خاموشی اختیار نہیں کرتے ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟ 

۳)ہمارے گھر میں بیک وقت کئ مساجد سے کی جانے والی اذانیں صاف طور پر سنائ دی جاتیں ہیں، اور اکثر یہ سلسلہ کافی وقت تک جاری رہتا ہے، ایسے میں ہم کس اذان کا جواب دیں؟ اور کیا ایک اذان کا جواب دینے کے بعد باتیں کی جا سکتی ہیں؟ یا جب تک مکمل خاموشی نہ ہو جاۓ بات نہ کی جاۓ؟؟؟

والسلام

الجواب باسم ملهم الصواب

وعلیکم السلام و رحمة الله!

۱) حضور صلی اللہ لیے وسلم نے فرمایا: “جب تم مؤذن کو سنو تو تم بھی وہی الفاظ کہو جو وہ کہہ رہا ہے،  پھر مجھ پر درود بھیجو ؛ کیوں کہ جو مجھ  پر ایک درودبھیجتاہے ﷲ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ پھر  ﷲ سے میرے لیے وسیلہ مانگو وہ جنت میں ایک درجہ ہے جو  ﷲ کے بندوں میں سے ایک ہی کے مناسب ہے مجھے امید ہے کہ وہ میں ہی ہوں گا، جو میرے لیے وسیلہ مانگے اس کے لیے میری شفاعت لازم ہے”۔ ایک حدیث شریف میں مذکور ہے کہ اذان اور اقامت کے درمیانی وقت میں کی جانے والی دعا رد نہیں کی جاتی ہے،  اس لیے اس حدیث کی رو سے اگر اذان کے بعد مسنون دعا اور درود شریف کے پڑھنے کے بعد اقامت تک اپنی کسی حاجت کے واسطے جو بھی دعا مانگی جائی، اس کی قبولیت کی زیادہ امید ہے۔ اذان کے بعد دعا کی یہ بھی فضیلت ہے کہ نبی کریم ﷺ کی شفاعت نصیب ہو گی۔ 

۲) اذان کے وقت خاموشی سے اذان کو سننا اور اذان کا جواب دینا مستحب ہے۔ اذان کے دوران بات کرنے کے متعلق وعید یا ممانعت مستند احادیث میں نہیں ہے،  نیز بعض مواقع پر نبی کریم ﷺ سے ضرورتاً اذان کے دوران گفتگو کرنا بھی ثابت ہے اس لیے اذان کے دوران بات چیت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ 

۳) پہلی اذان کا جواب دینا چاہیے۔ باقی اذانوں کا جواب دینا افضل ہے ، محلہ کی مسجد کی اذان ہو یا غیر محلہ کی۔ اذان کے دوران بات کرنے کا حکم جواب نمبر ۲ میں دیا جا چکا۔ 

“وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ ثُمَّ صَلُّوا عَلَيَّ فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا، ثُمَّ سَلُوا اللَّهَ لِيَ الْوَسِيلَةَ؛ فَإِنَّهَا مَنْزِلَةٌ فِي الْجَنَّةِ لَاتَنْبَغِي إِلَّا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ وَ أَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ فَمَنْ سَأَلَ لِيَ الْوَسِيلَةَ حَلَّتْ عَلَيْهِ الشَّفَاعَةُ. رَوَاهُ مُسلم”. (مشکاة، باب فضل الأذان و إجابة المؤذن)

“وحكى في التجنيس الإجماع على عدم كراهة الكلام عند سماع الأذان اهـ أي تحريماً وفي مجمع الأنهر عن الجواهر: إجابة المؤذن سنة. وفي الدرة المنيفة: أنها مستحبة على الأظهر”. حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 202)

“لايرد الدعاء بين الأذان والإقامة»”. سنن أبي داود (1/ 144)

“وإذا تعدد الأذان یجیب الأول”. (مراقي الفلاح ص 39,باب الأذان)

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ: 4 ربیع الاول 1442ھ

عیسوی تاریخ: 21 اکتوبر 2020

اپنا تبصرہ بھیجیں