بینک ملازم کو چیز بیچ کر جو رقم ملے اس کا حکم

السلام علیکم! ایک سبزی فروش ہے اس کے پاس کوئی ایسا شخص آئے جس کا اسے معلوم ہے کہ اس کی کمائی حرام ہے مثلا بینک میں جاب کرتا ہے اور وہ سبزی فروش سے سامان خریدتا ہے تو کیا وہ قیمت جو ادا کرے گا سبزی فروش کے لئے حلال ہوگی یا نہیں؟ اور ایسے شخص کو مال فروخت کرنے کا کیا حکم ہے ؟

الجواب باسم ملہم الصواب
صورت مسوؤلہ میں چونکہ امکان ہے کہ وہ بینک ملازم سبزی کی قیمت اپنی بینک کی تنخواہ کے علاوہ کسی اور ذریعہ آمدنی سے دےرہا ہو لہذا جب تک دکان دار کو اس رقم کے بارےمیں حتمی طور پر حرام ہونے کا یقین نہ ہو اس وقت تک اسے سبزی وغیرہ فروخت کرکے اپنی سبزی کی قیمت وصول کرنےکی اجازت ہوگی۔
—————
حوالہ جات :

1۔عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا عِنْدَ الرُّكْنِ قَالَ فَرَفَعَ بَصَرَهُ إِلَى السَّمَاءِ فَضَحِكَ فَقَالَ لَعَنَ اللَّهُ الْيَهُودَ ثَلَاثًا إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَيْهِمْ الشُّحُومَ فَبَاعُوهَا وَأَكَلُوا أَثْمَانَهَا وَإِنَّ اللَّهَ إِذَا حَرَّمَ عَلَى قَوْمٍ أَكْلَ شَيْءٍ حَرَّمَ عَلَيْهِمْ ثَمَنَهُ
(سنن ابی داود: 3488)
ترجمہ: ابن عباس ؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو (بیت اللہ میں) حجر اسود کے پاس بیٹھے دیکھا۔ آپ ﷺ نے اپنی نظر آسمان کی طرف اٹھائی اور ہنس دیے۔ پھر فرمایا: ”اللہ تعالیٰ یہودیوں پر لعنت کرے، تین بار فرمایا، اللہ تعالیٰ نے ان پر چربیوں کا استعمال حرام کر دیا تو انہوں نے اسے بیچنا شروع کر دیا اور اس کی قیمت کھانے لگے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم پر کسی چیز کا کھانا حرام کر دیتا ہے، تو اس کی قیمت بھی حرام کر دیتا ہے۔
————-
1۔رجل اكتسب مالًا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه: أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها، أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها، أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم، أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم. قال أبو نصر: يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول، وإليه ذهب الفقيه أبو الليث، لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير: إذا غصب ألفا فاشترى بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح۔وقال الكرخي: في الوجه الأول والثاني لا يطيب، وفي الثلاث الأخيرة يطيب، وقال أبو بكر: لا يطيب في الكل، لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس اهـ. وفي الولوالجية: وقال بعضهم: لا يطيب في الوجوه كلها وهو المختار، ولكن الفتوى اليوم على قول الكرخي دفعا للحرج لكثرة الحرام۔“
(فتاوی شامیہ: جلد 5، صفحہ 235)

2۔”اھدی الی رجل شیئا او اضافہ :ان کان غالب مالہ حلال فلا باس، الا ان یعلم۔بانہ حرام۔۔۔۔ لایجیب دعوة الفاسق الملعن لیعلم انہ غیر راض بفسقہ، وکذا دعوة من کان غالب مالہ من حرام مالم یخبر انہ حلال، وبالعکس یجیب مالم یتبین عندہ انہ حرام“۔
(الفتاوی الھندیہ: جلد 5، صفحہ 342)
———–
1۔جس کی آمدنی حرام ہے اس کے ہاتھ مال فروخت کرنا (سوال 252): ان کے ہاتھ بیع درست ہے۔
(فتاوی دارالعلوم دیوبند: جلد 14،صفحہ 394)
———–
واللہ اعلم بالصواب
2نومبر2022
7ربیع الثانی1444

اپنا تبصرہ بھیجیں