بیوی کا طلاق کے بعد بقیہ مہر پر حق کے متعلق

السلام علیکم ورحمة الله وبركاته.
سوال:کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میاں بیوی میں جھگڑے کے بعد مرد نے عورت کو (22 اکتوبر 2022 بمطابق 25 ربیع الاول 1444ھ بروز ہفتہ) اس کے میکے میں چھوڑ دیا، اگلے دن (23 اکتوبر 2022، بمطابق 26 ربیع الاول 1444ھ بروز اتوار) عورت نے ساتھ نہ رہنے کا فیصلہ کرتے ہوئے طلاق کا مطالبہ کیا، مرد نے فون پر عورت سے بات کی اس کے بعد اسپیکر کھولنے کا کہہ کر عورت کی ماں اور بہن کے سامنے کہا کہ میں تمہارے کہنے پر تمہیں طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں۔۔ اس کے بعد مرد نے عورت کی ماں سے کہا جب آپ سامان اٹھوانے آئیں گی تو تحریری طور پر بھی طلاق نامہ دے دوں گا۔
یاد رہے کہ مرد نے عورت کو تقریباً نصف مہر پہلے کا دیا ہوا ہے۔۔ اب طلاق کے بعد باقی مہر کے بارے میں کیا حکم ہے؟ عورت کو باقی مہر ملے گا یا نہیں؟
برائے مہربانی جواب جلد از جلد عنایت فرمائیں؟

وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب باسم ملهم الصواب
مذکورہ صورت میں اگر خلوت صحیحہ(تنہائی) ہو چکی تھی،اور بیوی نے مہر معاف بھی نہیں کیا تھا۔ تو اس صورت میں طلاق کے بعد اس کا مہر شوہر کے ذمہ لازم ہے۔اس کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔
حوالہ جات:

قرآن کریم سے :
1۔’’وَاٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِھِنَّ نِحْلَةً ط فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْئٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَکُلُوْهُ ھَنِیْئًا مَّرِیْئًا
(سورة النساء:4)
ترجمہ:اور عورتوں کو ان کے مَہر خوش دلی سے ادا کیا کرو، پھر اگر وہ اس (مَہر) میں سے کچھ تمہارے لیے اپنی خوشی سے چھوڑ دیں تو تب اسے (اپنے لیے) سازگار اور خوش گوار سمجھ کر کھاؤ۔

2۔ وَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا تَرَاضَیْتُمْ بِهٖ مِنْ بَعْدِ الْفَرِیْضَةِ۔
(النساء: 24)
ترجمہ:اور تم پر اس مال کے بارے میں کوئی گناہ نہیں جس پر تم مَہر مقرر کرنے کے بعد باہم رضا مند ہو جاؤ۔

**********
کتب فتاوی سے:

3۔’’والمهر یتأکد بأحد معان ثلاثة: الدخول، والخلوة الصحیحة، وموت أحد الزوجین سواء کان مسمی أو مهر المثل حتی لایسقط منة شيء بعد ذلك إلا بالإبراء من صاحب الحق ، کذا في البدائع“۔
(فتاوی ھندیہ:302/1)

4۔للمرأة أن تهب مالها لزوجها من صداق دخل بها أو لم يدخله۔
(فتاوى عالمگیرى:316/1)

5۔المھر واجب شرعاً ابانة لشرف المحل..
(البحر الرائق:143/3)

اردو فتاوی سے:

6۔ خلع میں جو شرائط طے ہوجائیں فریقین کو اس کی پابندی لازم ہوگی۔ اگر مہر چھوڑنے کی شرط پر خلع ہوا ہے تو عورت مہر کی حقدار نہیں اور اگر مہر کا تذکرہ نہیں آیا کہ وہ چھوڑا جائے گا یا نہیں تب بھی مہرمعاف ہوگیا۔البتہ اگر مہر ادا کرنے کی شرط تھی تو مہر واجب الادا رہے گا۔
( جامع الفتاوی:115/10)

7۔ زید نے بیوی سے کہا کہ :”اگر تو عمر سے بات کرے گی تو تجھے تین طلاق ہیں“۔ چناچہ بیوی نے جان بوجھ کر عمر سے بات کی کیا طلاق ہوگئی اور مہر کتنا دینا ہوگا؟
جواب صورت مسئولہ میں زید کی بیوی پر طلاق مغلظہ واقع ہو گئی۔ اب وہ زید کے لیے حلالہ کے بغیر ہرگز حلال نہیں ہو سکتی۔ اور اگر زید نے اب تک اس کا مہر ادا نہیں کیا ہے تو اس پر واجب ہے کہ فورا بیوی کو مہر ادا کرے۔ اگر یہ طلاق رخصتی کے بعد دی ہے تو پورا مہر ادا کرنا ہوگا۔
(فتاوی عثمانی:423/2)

واللہ سبحانہ اعلم

28 ربیع الاول 1444ھ
24 اکتوبر، 2022ء

اپنا تبصرہ بھیجیں