کمپیوٹرپرگیم کھیلناصحیح ہےیانہیں

فتویٰ نمبر:557

سوال: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

   استادصاحب !کیاکمپیوٹرپرگیم کھیلناصحیح ہےیانہیں؟خصوصاًطالبہ علم کیلئےکیساہے؟

وضاحت سے تحریراً جواب دےدیجئے؟

(۲)       استادصاحب  طالبہ علم کیلئےانٹرنیٹ پربیٹھنا یاکمپیوٹرکازیادہ استعمال کرناکیساہےاورعام آدمی کیلئے استعمال کرناکیساہےاوربرائےمہربانی استادصاحب کمپیوٹرکی چندبرائیاں مع الدلائل کے تحریر کر دیجئے تاکہ طالبات کوبتاکران کوکمپیوٹرکےفتنہ سےروکاجاسکے؟

الجواب حامدا   ومصلیا

(۱)   کمپیوٹرپرایساگیم کھیلناجس میں جاندارکی تصویرنہ ہو،اورنہ ہی موسیقی کی آوازسنائی دے، جائز ہے، بشرطیکہ گیم کھیلنےسےاللہ تعالیٰ کایاکسی بندےکاکوئی حق ضائع نہ ہو،(۱) لیکن علم دین کی طالبہ کیلئےیہی مناسب ہےکہ وہ زمانہ طالب علمی میں کمپیوٹرپرگیم کھیلنےسےحتیّ الوسع بچنےکی کوشش کرےتاکہ پوری دلجمعی سےعلوم دینیہ  میں رسوخ حاصل کرسکے۔

(۲)    واضح رہےکہ کمپیوٹروانٹرنیٹ پرجاندارکی تصویردیکھنا،موسیقی سننا،گانےوغیرہ سننا،غیرمحرم سےناجائزتعلق قائم کرنا،فحاشی وعریانی والی چیزیں دیکھنایااس میں لگ کر فرائض میں کوتاہی کرناجائز نہیں ،اوراگران قباحتوں سےمکمل  احترازکیاجائےتوکمپیوٹرونیٹ کااستعمال  شرعاًجائزہے۔

البتہ علوم ِ دینیہ کی طالبات کیلئےزمانہ طالبعلمی میں کمپیوٹرونیٹ کااستعمال مناسب نہیں     اوّلاًتواس لئےکہ مذکورہ قباحتوں سےبچناآسان کام نہیں، بلکہ مشاہدہ سےثابت ہےکہ جوان طبقہ ان چیزوں میں پڑکربالآخربےحیائی وفحاشی کودعوت دینےلگتاہے۔

ثانیاً یہ کہ اگربالفرض ان تمام حدود وقیودکی رعایت بھی کی جائےپھربھی کمپیوٹرو نیٹ طلبہ وطالبات کی علمی ترقی میں مانع ثابت ہوتےہیں جبکہ علم دین بغیرمکمل یکسوئی  کے حاصل نہیں ہوسکتا ثالثاًاس لئےکہ اکابرعلمائےِکرام اپنی حکمت وبصیرت کی بناپرزمانہ طالبعلمی میں ان چیزوں کےاستعمال سےہی نہیں بلکہ ہرغیرعلمی مشغولیت سےمنع فرماتے ہیں اور فراغت کےبعدان چیزوں کےاستعمال کی  نہ صرف اجازت بلکہ بعض کوترغیب بھی دیتےہیں ،لہذا طالبات کوچاہیےکہ زمانہ  طالبعلمی میں اکابرعلماء کےحکم کااحترام کرتےہوئے اوران کی  حکمت پراعتماد کرتےہوئےان چیزوں سےحتی ّالوسع احترازکرے

التخريج

 (۱)التفسير المنير للزحيلي – (7 / 46)

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ…الخ

قال القرطبي: هذه الآية تدل على تحريم اللعب بالنّرد والشطرنج، قمارا أو غير قمار، لقوله تعالى: إِنَّما يُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَداوَةَ وَالْبَغْضاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ فكل لهو دعا قليلة إلى كثيرة وأوقع بينكم العداوة والبغضاء بين العاكفين عليه وصدّ عن ذكر اللّه وعن الصلاة، فهو كشرب الخمروأوجب أن يكون حراما مثله. وأيضا فإن ابتداء اللعب يورث الغفلة فتقوم تلك الغفلة المستوليد على القلب مكان السكر. سئل القاسم بن محمد عن الشطرنج أهي ميسر؟ وعن النرد أهو ميسر؟ فقال: كل ما صدّ عن ذكر اللّه وعن الصلاة فهو ميسر

الموسوعة الفقهية الكويتية – (35 / 268)

وَإِبَاحَةُ اللَّعِبِ إِنَّمَا يَكُونُ بِشَرْطِ أَنْ لاَ يَكُونَ فِيهِ دَنَاءَةٌ يَتَرَفَّعُ عَنْهَا ذَوُو الْمَرُوءَاتِ ، وَبِشَرْطِ أَنْ لاَ يَتَضَمَّنَ ضَرَرًا فَإِنْ تَضَمَّنَ ضَرَرًا لإِِنْسَانٍ أَوْ حَيَوَانٍ

كَالتَّحْرِيشِ بَيْنَ الدُّيُوكِ وَالْكِلاَبِ وَنِطَاحِ الْكِبَاشِ وَالتَّفَرُّجِ عَلَى هَذِهِ الأَْشْيَاءِ فَهَذَا حَرَامٌ ، وَبِشَرْطِ أَنْ لاَ يَشْغَل عَنْ صَلاَةٍ أَوْ فَرْضٍ آخَرَ أَوْ عَنْ مُهِمَّاتٍ

وَاجِبَةٍ فَإِنْ شَغَلَهُ عَنْ هَذِهِ الأُْمُورِ وَأَمْثَالِهَا حَرُمَ ، وَبِشَرْطِ أَنْ لاَ يُخْرِجَهُ إِلَى الْحَلِفِ الْكَاذِبِ وَنَحْوِهِ مِنَ الْمُحَرَّمَاتِ

الموسوعة الفقهية الكويتية – (35 / 269)

وَمِنَ اللَّعِبِ الْمُحَرَّمِ عِنْدَ الْفُقَهَاءِ : كُل لُعْبَةٍ فِيهَا قِمَارٌ لأَِنَّهَا مِنَ الْمَيْسِرِ الَّذِي أَمَرَ اللَّهُ بِاجْتِنَابِهِ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى :{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالأَْنْصَابُ وَالأَْزْلاَمُ رِجْسٌ مِنْ عَمَل الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلاَةِ فَهَل أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ}.

اپنا تبصرہ بھیجیں