ڈائجسٹ پڑھنا کیسا ہے؟

فتویٰ نمبر:971

 ڈائجسٹ پڑھنا کیسا ہے بعض اوقات اس میں ایسی کہانیاں بھی ہوتی ہیں جس سے گھریلو معاملات میں کافی مدد ملتی ہے آ یا شریعت میں اس کی گنجائش ہے؟؟

الجواب حامدۃً ومصلیۃً 

ناولوں میں عام طور پر عشق و محبت کی کہانیاں ، دین کا مذاق واستہزا ،جرائم پیشہ افراد کے واقعات، فحش اورگندے اشعار، فحاشی اور عریانیت کو عام کرنے والے مواد اور حقیقت سے دورخوابوں خیالوں کی باتیں ہوتی ہیں ،جن سے پڑھنے والوں کا ذہن اور اخلاق دونوں خراب ہوتے ہیں۔خاص طور پر خواتین ایسی باتوں کا اثر جلد قبول کرتی ہیں ۔نبی کریم ﷺ نے خواتین کی اس کمزوری کی طرف اشارہ فرمایا: 

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حدی خواں تھے جن کا نام انجشہ تھا وہ بہت خوش آواز تھے ایک سفر کے دوران آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ انجشہ اونٹوں کو آہستہ آہستہ ہانکو اور شیشوں کو نہ توڑو۔ حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حدیث کے ایک راوی کہتے ہیں کہ شیشوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد عورتیں تھیں۔

اس ارشاد گرامی کے ذریعہ عورتوں کے دل کی کمزوری و نرمی کی کی طرف اشارہ کرنامقصود تھا کہ عورتوں کے دل کمزور ہیں، متاثر ہوجائیں گی اور تمہارے گانے کی وجہ سے ان کے ذہن ودماغ اور جذبات میں ہلچل پیدا ہوسکتی ہے اور وہ کسی برے خیال میں مبتلا ہوسکتی ہیں، امت کو تعلیم وتلقین فرمائی کہ عورتوں کی فطری کمزوری کی رعایت کی جائے۔ 

ایک اور خطرناک رحجان جو فی زمانہ ان کہانیوں میں دیکھا جارہا ہے وہ دین کی غلط تعبیر اور تشریح ہے ، کورے اذہان اس تعبیر و تشریح سے متاثر ہوجاتے ہیں ۔دوسرا خطرناک پہلو علماء سے اس کے جواز کے فتوے لینے کا رحجان ہے۔ گناہ جب تک گناہ سمجھ کر کیا جائے وہ اتنا خطرناک نہیں ہوتا لیکن اس کے جواز کے لیے تاویلیں پیش کرنا اور فتوے لینا یہ نرا خسار ا ہے۔ اس کے علاوہ اس مشغلے میں وقت بہت ضائع ہوتا ہے، انسان اس کا عادی ہوجاتا ہے، ضروری کاموں کو اس کی خاطر چھوڑدیتا ہے،الغرض یہ ایسا لٹریچر ہے جو معاشرہ میں صلاح وبہتری کے بجائے فساد و بگاڑ میں اضافہ کا سبب بنتا ہے؛ا س لیے لہو اورناجائز ہے۔

قال اللہ تعالی فی کلامہ : {ومن الناس من یشتري لہو الحدیث لیضل عن سبیل اللہ بغیر علم} ۔ [سورۃ لقمٰن :۶] 

امام بخاریؒ نے اپنی کتاب ” الادب المفرد” میں اور بیہقی نے اپنی سنن میں لہو الحدیث کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ “لہو الحدیث ھو الغناء وأشباھہ “یعنی: لہو الحدیث سے مراد گانا اور اس کے مشابہ دوسری چیزیں ہیں (یعنی :جو چیزیں اللہ کی عبادت سے غافل کردیں )، معارف القرآن میں مفتی شفیع عثمانی صاحب ؒ فرماتے ہیں اس زمانے میں بیشتر نوجوان فحش ناول یا جرائم پیشہ افراد کے حالات پر مشتمل قصے یا فحش اشعار دیکھنے کے عادی ہیں ،یہ سب چیزیں اسی قسم لہو حرام میں داخل ہیں الخ۔

وقال تعالی : {إن الذین یحبون أن تشیع الفاحشۃ في الذین اٰمنوا لھم عذاب ألیم} ۔ (سورۃ النور :۱۹)

في ’’ المعجم الأوسط للطبراني ‘‘ : عن عمر بن الخطاب قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ’’ کل لہو یکرہ إلا ملاعبۃ الرجل امرأتہ ، ومشیہ بین الہدفین ، وتعلیمہ فرسہ ‘‘ ۔ (۵/ ۲۳۶ ، رقم الحدیث : ۶۱۸۳)

فی’ الشامیۃ ‘‘ : کل لہو المسلم حرام ۔ (۹/ ۵۶۶ ، الحظر والإباحۃ ، باب الاستبراء وغیرہ)

قال التھانوي في أحکام القرآن (۳: ۲۰۰، ۲۰۱):وفذلکة الکلام أن اللھو علی أنواع؛ لھو مجرد، ولھو فیہ نفع وفائدة ولکن ورد الشرع بالنھي عنہ، ولھو فیہ فائدة ولم یرد فی الشرع نھي صریحب عنہ ولکنہ ثبت بالتجربة أنہ یکون ضررہ أعظم من ن…

[8:09 PM, 6/28/2018] بنت عبدالقادر: بسم اللہ کی جگہ786 لکھنا

سلسلۃ الجواب: 12

سوال:

السلام علیکم مفتی صاحب! (الف)یہ 786 کہاں سے لیا گیا ہے(ب) یہ صحابہ سے یا نبیﷺ سے ثابت ہے؟

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ

الجواب حامدۃ ومصلیۃ

(الف) ہر چھوٹے بڑے کام کو بسم اللہ سے شروع کرنے کی تاکید اور فضیلت بہت سی حدیثوں سے ثابت ہے۔آج کل بہت سی تحریروں میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کی جگہ 786 لکھا ہوا ہوتا ہے، اِس کے بارے میں یاد رکھنا چاہیے کہ اصل سنت کی ادائیگی بسم اللہ پڑھنے سے ہوتی ہے، 786 بسم اللہ کا متبادل نہیں بن سکتا۔ جہاں تک 786کا تعلق ہے اس کی حیثیت فقط اتنی ہے کہ یہ بسم اللہ شریف کا عدد ہے۔بزرگوں سے اس کے لکھنے کا معمول چلا آرہاہے، غالبا اس کو رواج اس لیے دیا گیا ہوکہ خطوط عام طور پر پھاڑ کر پھینک دئیے جاتے ہیں، جس سے بسم اللہ شریف کی بےادبی ہوتی ہے، اس بےادبی سے بچانے کیلئے غالبا بزرگوں نے بسم اللہ شریف کے اعداد لکھنے شروع کیے۔جہاں بے ادبی کا احتمال نہ ہو وہاں بسم اللہ ہی لکھنی چاہیے۔

(ب)اِس عدد کا ثبوت احادیث وآثار میں نہیں ملتا؛ البتہ کوئی شخص اپنی تحریر کے آغاز میں زبان سے بسم اللہ پڑھ کر 786 لکھ دے؛ تاکہ وہ علامت بن جائے کہ لکھنے والے نے اپنی تحریر کو بسم اللہ سے شروع کیا ہے تو گنجائش ہوسکتی ہے۔

وفي حدیث: وکتب لہ النبي صلی اللہ علیہ وسلم بسم اللہ الرحمن الرحیم ہذا ما أعطیٰ محمد رسول اللہ بلال بن الحارث المزني

(سنن أبي داؤد، کتاب الخراج والفئ والامارۃ، باب في إقطاع الأرضین، النسخۃ الہندیۃ ۲/۴۳۵ دارالسلام رقم:۳۰۶۲)

عن یزید بن عبد اللہ…قال: کنا جلوسا لہذا المربد بالبصرۃ، فجاء أعرابي معہ قطعۃ من أدیم، فقال: ہذا کتاب کتبہ لی النبي صلی اللہ علیہ وسلم، قال: فأخذتہ فقرأتہ علی القوم، فإذا فیہ بسم اللہ الرحمن الرحیم من محمد رسول اللہ لبني زہیر بن أقیش۔ (مصنف ابن أبي شیبہ، مؤسسہ علوم القرآن ۲۰/۲۸۹، رقم:۳۷۷۹۰)

عن عبد اللہ بن عمر رضي اللہ عنہ أنہ کتب إلی أمیر المؤمنین عبد الملک یبایعہ، فکتب بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ أما بعد من عبد الملکأمیر المؤمنین إلی عبد اللہ بن عمر سلام علیک الخ: (مؤطا امام محمد، مکتبہ فیصل دیوبند، ہندي، ص:۳۸۱ رقم:۹۰۰)

عن أنس بن مالکؓ قال: کانوا یکتبون في صدور وصایا ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ ہذا ما أوصیٰ بہ فلان۔ (مصنف عبد الرزاق۹/۵۳، رقم:۱۶۳۱۹)

فقط واللہ تعالی اعلم بالصواب

بنت عبد القادر عفی عنھا

دار الافتاء صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر

1439/6/22ھ

2018/3/11ء

اپنا تبصرہ بھیجیں