غصب شدہ زمین پر نماز پڑھنا

سوال1: کسی شخص نے کسی دوسرے کی زمین کی قیمت ادا کیے بغیر اس پر قبضہ کر لیا اور اس پر مسجد بنا دی تو کیا اس میں نماز پڑھنا جائز ہے؟

2:مسجد کے علاوہ مطلقاً غصب شدہ زمین پر نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟

جوا ب:دونوں سوالات کے جوابات بالترتیب ملاحظہ ہوں۔

1: واضح رہے کہ قیمت ادا کیے بغیر کسی دوسرے کی زمین میں قبضہ کرنا شرعاً غصب کہلاتا ہے اور غصب کردہ جگہ کو جب تک زمین کا مالک مسجد کے لیے وقف نہ کردے تو اس پر مسجد کے احکام جاری نہیں ہوتے۔لہذا مذکورہ صورت میں جب تک مالک غصب کردہ زمین کو مسجد کے لیے وقف نہ کردے تو ایسی جگہ میں نماز پڑھنا مکروہ ہے اور نماز پڑھنے والا گناہ گار ہوگا،تاہم نماز ہو جائے گی۔

2: مسجد کے علاوہ مطلقاً غصب شدہ زمین پر نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے۔

======================

حوالہ جات:

1…وكذا تكره في أماكن كفوق كعبة….. وأرض مغصوبة أو للغير وفى حاشية ابن عابدين: بنى مسجداً على سور المدينة لا ينبغي أن يصلي فيه؛لأنه حق العامة فلم يخلص للّٰه تعالى كالمبني في أرض مغصوبة .

(الدر المختار مع رد المحتار:55/2)

2…الصلاة فى أرض مغصوبة جائزة ولكن يعاقب بظلمه فما كان بينه وبين اللّٰه تعالي يثاب وما كان بينه وبين العباد يعاقب كذا فى مختار الفتاوى،الصلاة جائزة فى جميع ذالك لاستجماع شرائطهاواركانها وتعاد على وجه غير مكروه وهو الحكم فى كل صلاة أديت مع الكراهة كذا في الهداية،فان كانت تلك الكراهة كراهة تحريم تجب الإعادة أو تنزيه تستحب فإن الكراهة التحريمية في رتبة الواجب كذا في فتح القدير.

(الفتاوى الهندية:121/1)

3…ایک غیر مسلم کی زمین میں بغیر اس کی اجازت کے مسجد بنائی گئی یہ جگہ مسجد نہیں،بدون اذن مالک اس میں نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے؛ اس لیے نماز کا اعادہ واجب ہے۔

(احسن الفتاوی:428/3)

4… غصب کردہ جگہ میں مسجد بنانا درست نہیں،اس لیےغصب کی ہوئی جگہ میں جو مسجد بنائی گئی ہے جب تک زمین کا مالک اس کو مسجد کے لیے وقف نہ کرے اس پر مسجد کے احکام جاری نہیں ہوں گے،اور وہاں نماز پڑھنا گناہ ہے گو نماز ہو جائے گی۔

(آپ کے مسائل اور ان کا حل:185/2)

واللّٰہ اعلم بالصواب

8 دسمبر 2021ء

3 جمادی الاولی 1443ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں