گروی رکھنے کا حکم

فتویٰ نمبر:529

سوال:زید نے عمر سے پیسہ 5 لاکھ تھوڑے وقت کے لئے لیے اسکے بدلے میں اپنا پلاٹ اس (عمر)کو دے رکھا تھا (جب 5 لاکھ اداکرےتب واپس کرنا)اور اس پلاٹ میں استعمال کی بھی بخوشی اجازت دی تو آیا عمراس پلاٹ کو (مفت میں ) استعمال کرسکتے یا نہیں ؟

الجواب حامدا ومصلیا
قرض کے بدلے میں اپنی کوئی چیز(مکان،پلاٹ وغیرہ) قرض دینے والے کے پاس رکھوانے کو ’’رھن‘‘ یعنی گروی رکھوانا کہتے ہیں،جو چیز رھن رکھوائی جائے اسے’’شیٔ مرھون‘‘،گروی رکھوانے والے کو ’’راھن‘‘ اور جس کے پاس گروی رکھوائی جائے اس کو ’’مرتہن‘‘ کہتے ہیں۔اس کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ :
مرتہن کا مرہونہ چیز سے استفادہ کرنا (اگرچہ وہ راہن کی اجازت سے ہی کیوں نہ ہو)قرض پر نفع ہونے کی وجہ سے سود ہے جو کہ حرام ہے ،اور یہ سودی معاملہ کرنے کی وجہ سے دونوں فریق یعنی راہن اور مرتہن گناہگار ہوں گے۔
البتہ اس سے بچنے کے لئے مندرجہ ذیل دو طریقوں میں سے کوئی ایک طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے:
(۱)پہلا طریقہ: اپنی زمین رہن رکھنے کی بجائے دوسرےشخص کوکرائے پر دیدیں،مثلا کسی شخص سے ایک سال کے لئے قرض لیا ہےتوایک سال کےلئے اپنی زمین اس کوکرائے پر دے دے اور اس سے كرایہ وصول کرکےاس کا قرض ادا کر دے۔
البتہ یہ بات واضح رہےکہ معاہدہ کرتے وقت مذکورہ زمین کا کرایہ اتنا طے کیا جائے جتنا عرف و رواج میں اس جیسی دوسری زمینوں کا طے کیا جاتا ہو،قرض دینے کی وجہ سے اس شخص کو رعایت دینااوراس سے زمین کا کرایہ عام زمینوں سے کم لینا سود میں شامل ہو جائیگا اور سود حرام ہے۔
(۲)دوسرا طریقہ:اپنی زمین کی قیمت لگا کردوسرے شخص کو بیچ دے اور دوسرا شخص اس کو خرید لے پھر قیمت وصول کرلینے کے بعد جب عقد مکمل ہو جائے تو خریدار سے یہ وعدہ کرلےکہ جب میں آپ کو رقم واپس کر دوں گا تو آپ(خریدار)بھی مجھے یہ زمین واپس کر دیں گے۔اور اس وعدہ کی وجہ سے خریدار اس بات کا پابند ہو گا کہ جب آپ اس کو رقم لوٹا ئیں تو وہ بھی آپ کو زمین لوٹائے ۔
اس طریقہ سے بیع کرنے کو ’’بیع بالوفاء‘‘کہتے ہیں جس کو متاخرین حنفی فقہاء کرام ؒ نے ضرورت کے وقت جائز قرار دیا ہے بشرطیکہ بیع کا معاملہ کرتے وقت (صُلبِ عقدمیں)واپسی کی شرط نہ لگائی جائے ،بلکہ عقدکے بعد بطورِ وعدہ واپسی کا معاملہ کیا جائے۔)ماخذہ تبویب ۶۰،۶۷۳)
 حوالہ جات:
الدر المختار- (6 / 522)
ثم نقل عن التهذيب أنه يكره للمرتهن أن ينتفع بالرهن وإن أذن له الراهن.
قال المصنف: وعليه يحمل ما عن محمد بن أسلم من أنه لا يحل للمرتهن ذلك ولو بالإذن لأنه ربا.قلت: وتعليله يفيد أنها تحريمية فتأمله
البحر الرائق، دارالكتاب الاسلامي – (6 / 8)
ثم اعلم بأن بالقاهرة بيعا يسمى بيع الأمانة كما ذكره الزيلعي ويسمى أيضا
الرهن المعاد كما في الملتقط وسماه الفقهاء بيع الوفاء……الثالث ما اختاره قاضي خان وقال الصحيح أنه إن وقع بلفظ البيع لا يكون رهنا ثم إن شرطا فسخه في العقد أو تلفظا بلفظ البيع بشرط الوفاء أو تلفظا بالبيع وعندهما هذا البيع غير لازم فالبيع فاسد وإن ذكرا البيع بلا شرط ثم شرطاه على وجه المواعدة جاز البيع ولزم الوفاء وقد يلزم الوعد لحاجة الناس فرارا من الربا
الدر المختار (5 / 276)
وبيع الوفاء ذكرته هنا تبعا للدرر
صورته أن يبيعه العين بألف على أنه إذا رد عليه الثمن رد عليه العين وسماه الشافعية بالرهن المعاد ويسمى بمصر بيع الأمانة وبالشام بيع الإطاعة قيل هو رهن فتضمن زوائده وقيل بيع يفيد الانتفاع به ، وفي إقالة شرح المجمع عن النهاية وعليه الفتوى، وقيل إن بلفظ البيع لم يكن رهنا ….. القول السادس في بيع الوفاء إنه صحيح لحاجة الناس فرارا من الربا وقالوا ما ضاق على الناس أمر إلا اتسع حكمه،
المجلة (1 / 19)
مادة 32 الحاجة تنزل منزلة الضرورة عامة أو خاصة ومن هذا القبيل تجويز البيع بالوفاء حيث أنه لما كثرت الديون على أهل بخارى مست الحاجة إلى ذلك فصار مرعيا أنظر المواد 15 و 17 و 26 و شواهدها
الفتاوى الهندية – (5 / 465)
وكذلك لو استأجره المرتهن صحت الإجارة، وبطل الرهن إذا جدد القبض للإجارة، ولو هلك في يده قبل انقضاء مدة الإجارة، أو بعد انقضائها، ولم يحبسه من الراهن هلك أمانة،
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام – (1 / 21)
العبرة في العقود للمقاصد والمعاني لا للألفاظ والمباني ولذا يجري حكم الرهن في البيع بالوفاء
واللہ اعلم بالصواب
 

اپنا تبصرہ بھیجیں