گروپ بنا کر ختم قرآن کرنا

سوال: ہم نے ختم قرآن کا ایک گروپ بنایا ہے جس میں تقریبا 30- 35 بچیاں ہیں۔ ہم سب مل کر ہفتہ کے دو قرآن ختم کرتے ہیں۔ جن بچیوں کا شرعی عذر ہوگا ان کو پارہ نہیں دیا جائے گا۔ اور ان کے علاوہ کی جو بچیاں ہیں ان کا چلتا رہے گا۔سسٹم یہ ہوگا کہ ہر بچی اپنا پارہ پڑھتی رہے گی جب تک کہ اس کا قرآن پورا نہیں ہو جاتا۔تو اس طرح 30 قرآن گروپ میں بھی پورے ہو جائیں اور ہر 30 بندی میں سے ہر ایک کا اپنا قرآن بھی مکمل ہو ۔زور زبردستی کسی پر نہیں ہوتی۔ جو اپنے شوق سے پڑھنا چاہتی ہے اور یہ چاہتی ہیں کہ ان کے دور رمضان کے بعد بھی چلتے رہیں ورنہ وہ نہیں پڑھ پاتیں ۔ تو کیا اس طرح ختم قرآن کرنا صحیح ہے؟

الجواب باسم ملھم الصواب

قرآن شریف کی تلاوت ایک بڑی عبادت ہے اور اس کو حفظ کرنے کے بعد اس کو یاد رکھنا بہت ضروری ہے۔اس مقصد کے لیےاس کو انفرادی طور پر بھی پڑھا جاسکتا ہے اور اجتماعی طور پر بھی۔ شریعت نے اسکی کوئی خاص ہئیت متعین نہیں کی سب کا مل کر قرآن شریف پڑھنا اور ختم کرنا نہ فرض ہے، نہ واجب اور نہ سنت۔ لہذا اس طریقہ کو فرض، واجب یا سنت سمجھے بغیر ، قرآن کو یاد رکھنے کی غرض سے، شرعی حدود میں رہتے ہوئے اگر ختم قرآن کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس پر اجرت نہ لی جائے اور قرآن شریف ختم کرنے کا مقصد صرف رضائے الہی ہو ایک دوسرے کو دکھانا مقصد نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1۔وقد أطنب في رده صاحب تبيين المحارم مستندا إلى النقول الصريحة، فمن جملة كلامه قال تاج الشريعة في شرح الهداية: إن القرآن بالأجرة لا يستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ. وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا، والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان بل جعلوا القرآن العظيم مكسبا ووسيلة إلى جمع الدنيا – إنا لله وإنا إليه راجعون – اهـ.
——–
ص56 ۔ كتاب حاشية ابن عابدين رد المحتار ط الحلبي – مطلب في الاستئجار على المعاصي
——–
2۔قرآن شریف کا سننا خارج نماز بھی ضروری ہے، یعنی چپ رہنا اور سننا چاہئے، كما قال الله تعالى : واذا قريَ القرآن فاستمعوا له وانصتوا ( سورة اعراف: 204 )، فی الدر المختار: یجب استماع للقراة مطلقا لان العبرة لعموم اللفظ.. الاخ لیکن بچوں کا پڑھنا ایک جگہ یاد کرنے کے لئے بوجہ ضرورت کے ہے،اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(فتاوی دارالعلوم دیوبند ، 14/ 245)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

3۔حضرت مولانا سیدزوّار حسین نقشبندی اپنی کتاب ”عمدة الفقہ“ میں لکھتے ہیں:
قرأت قرآن کے لیے قبر کے پاس بیٹھنا نیز قرآن شریف پڑھنے کے لیے حافظوں اور قرآن خوانوں کو بٹھانا بھی بلاکراہت جائز ہے؛ جبکہ پڑھنے والے اجرت پرنہ پڑھتے ہوں اور پڑھوانے والے کو اجرت (دینے) کا خیال نہ ہو۔ (عمدة الفقہ،ص:۵۳۶/۲)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
والله تعالى أعلم بالصواب
26 جمادی الثانی 1444ھ
19 جنوری 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں