اِسلامی معیشت اور حلال و حرام کا تصور

حلال و حرام کے دو اَساسی اُصول اِسلام میں حلال و حرام کو سمجھنے کے لیے دو چیزوں کو سمجھنا ضروری ہے: 

1 حلال و حرام کا تعلق شریعت و قانون سازی کے اعتبار سے بھی اور اجر و ثواب یا گناہ و عقاب کے اعتبار سے بھی فقط اور فقط اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے۔ حلال کمانے اور حرام سے بچنے کا اُس وقت تک کوئی فائدہ نہیں جب تک اللہ کی رضا حاصل کرنے کی خواہش اور اللہ کی ناراضگی سے بچنے کا خوف نہ ہو۔

ایک شخص رشوت سے اِس لیے بچتا ہے کہ یہ نیچ اور گھٹیا حرکت ہے، پیارے ملک پاکستان کی جڑیں کھوکھلی ہو جاتی ہیں۔ ایسے شخص کو رشوت سے بچنے کا کوئی ثواب نہیں، ثواب اُس وقت ملے گا جب وہ یہ سوچے کہ رشوت حرام ہے، اِس پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیںاور آخرت میں مجھے سزا ہو گی۔ 
2 اسی طرح بالفاظ دیگر حلال و حرام کا تعلق خالص آخرت کی طلب کے ساتھ ہے، یعنی حلال کو صرف اِس لیے نہ کمایا جائے کہ وہ خوب نفع آور ہے اور حرام سے اِس لیے نہ بچا جائے کہ اُس میں نفع کی اُمید کم ہے۔ یا حلال کی رغبت فقط اِس وجہ سے نہ ہو کہ یہ قانونی ہے اور معاشرے میں رائج ہے اور حرام سے بے رغبتی فقط اِس وجہ سے نہ ہو کہ یہ قانوناً منع ہے۔ اِس کی مثال اِس طرح ہے کہ بعض لوگ لاٹری سے بچتے ہیں صِرف اِس وجہ سے کہ وہ اِس کو غیر عاقلانہ، احمقانہ فعل سمجھتے ہیں، جس میں نفع کی اُمید نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ لاٹری سے بچنے کا یہ تصور خالص مادی اور دُنیوی ہے جس پر کوئی ثواب نہیں۔ لاٹری سے بچنے کا ثواب اس وقت ہے جب اِس کو گناہ سمجھا جائے، اِس کو حرام سمجھا جائے اور آخرت کے خوف کے تحت اِس کو رد کر دیا جائے۔ 
حلال و حرام کی دو قسمیں 
اِسلامی معیشت میں حلال و حرام کو دو قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
٭ اِسلامی معاشی قانون میں حلال و حرام
٭ اِسلامی معاشی اخلاق میں حلال و حرام
اِسلامی معاشی قانون میں جو چیزیں حلال و حرام ہیں، وہ اِسلامی تہذیب کا خاصہ ہیں۔ دیگر تمام عالمی تہذیبوں میں اُن کے ممنوع اور غیر ممنوع ہونے کا کوئی تصور نہیں، جبکہ جو چیزیں اِسلامی اخلاق میں حلال یا حرام ہیں وہ ساری دُنیا کے اخلاقی اصول کے مطابق ممنوع یا غیر ممنوع ہیں۔ اِسلامی معاشی قانون میں درج ذیل چیزیں حرام ہیں جو دنیا کی باقی تمام تہذیبوں میں غیر ممنوع ہیں: 
1 سود
2 جُوا اور اس کی تمام جدید شکلیں
3 مُردار، سور، خون کی خرید و فروخت (اکل وشرب کے لیے)
4 تمام نشہ آور اُمور جیسے شراب، ہیروئن، چرس وغیرہ
5 فحش لٹریچر، رسائل، ناول، ڈائجسٹ، فحش فنون لطیفہ، ڈرامے، فلمیں، نغمے اور موسیقی 
اِسلامی معاشی اخلاق میں جو چیزیں حلال یا حرام ہیں وہ دُنیا کے عالمی تہذیبی اخلاق کے مطابق ہیں، مثلاً: ملاوٹ، دھوکہ، لوٹ کھسوٹ، کسی کا ناحق مال دبانا، جھوٹ سے ناقص مال بیچنا، رشوت، یتیم کا مال کھانا، قرضے کی واپسی میں ٹال مٹول، بغیر ڈیوٹی یا ناقص ڈیوٹی کے بدلے مکمل تنخواہ وصول کرنا، صارفین کو دِل فریب تجارتی اسکیموں کے ذریعے دامِ فریب میں پھنسانا، محکمانہ دفاتر میں تاخیری حربے اور رشوت کی گرم بازاری، غبن اور قرضوں کی خُرد بُرد، عوام کی ضرورت کے وقت ذخیرہ اندوزی، صنعتی وتجارتی اجارہ داریاں اور قیمتوں پر ظالمانہ کنٹرول، اِسی طرح جاگیرداروں کا مزارعین کی مکمل معاشی زندگی پر سفاکانہ کنٹرول، مزدوروں کا استحصال… یہ تمام اُمور بین الاقوامی اخلاقی اصولوں کے خلاف ہیں اور دُنیا کا ہر مذہب، قوم، باشعور انسان اِن اُمور کو قبیح اور ناپسندیدہ قرار دیتا ہے اور ترقی یافتہ ممالک میں اِن اخلاقی اصولوں کی پاسداری کے لیے مناسب قانون اور اُس کی علمبرداری بھی موجود ہے۔ 
حلال و حرام قانونی اعتبار سے ہو یا اِخلاقی اعتبار سے، اُس کے متعلق دو باتوں کا جاننا ضروری ہے: 
1 اِسلام میں دونوں قسم کے حلال و حرام کی قباحت ہے۔ اُن کا گناہ و ثواب، اُن کی اُخروی و دُنیوی قباحت، اُن پراللہ کی محبت یا ناراضگی بالکل برابر درجے کی ہیں، چنانچہ جو شخص قانوناً جائز کاروبار کرتا ہے، لیکن اللہ کے نزدیک حرام کاروبار کرتا ہے تو اُس کے مقہور و مغضوب ہونے میں کوئی شک نہیں۔ 
2 جو شخص اِسلامی اخلاق کے حلال و حرام کا خاص خیال رکھتا ہے، لیکن اُس کے ذہن کی رسائی فقط ملی، قومی محبت اور انسانیت کی خیر خواہی پر مبنی ہے۔ یعنی وہ حرام کردہ اُمور سے فقط قومی اور اِنسانی مصلحت کے تحت اجتناب کرتا ہے، تو یہ شخص اِسلامی اخلاق کا حامل نہیں کیونکہ اِسلامی اخلاق ہر قبیح اور ناپسندیدہ حرکت سے اجتناب کو اُس وقت قدر اور وقعت کی نگاہ سے دیکھتا ہے جب اولاً اُس اخلاق کے پس پردہ اجر و ثواب، رضائے الٰہی، حاکمیت الٰہی کا اعتراف، توجہ و انابت اور آخرت کی طلب و جستجو شامل ہو۔ رب العالمین کے حضور اس دستک کے ساتھ بات کو ختم کرتا ہوں کہ وہ ذات ہمیں معاملات میں حلال و حرام کی سمجھ اور عمل کی توفیق دے، آمین۔

تحریر:مولانا سجاد حسین ظفر 

اپنا تبصرہ بھیجیں